لاہور (ا ین این آئی)آڈیٹر جنرل آف پاکستان رانا اسد امین نے کہاہے کہٹوکیو اور جکارتہ میں پاکستانی سفارتخانوںکی عمارات کی غیر قانونی فروخت کے معاملہ پر پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نوٹس لے چکی ہے اورنیب اس پر تحقےقات کر رہا ہے ،30مارچ تک رپورٹ کو حتمی شکل دیدی جائے گی اور اس میں جو بھی ذمہ دار ٹھہرے گا اسے گرفت میں لے کر ریکوری کی جائے گی ، وفاقی وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کےلئے خصوصی آڈٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ،صوبائی حکومتےں بھی تاخےر شدہ آڈٹ رپورٹس مکمل کرائےں،آڈٹ ڈیپارٹمنٹ درست سمت میں اورذمہ داری سے کام شروع کر دے تو ایف آئی اے اور نیب کا آدھا کام باقی رہ جائے ،کرپشن کے خاتمے کے لئے بہت جلد نیب کے ساتھ معاہدہ ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے محکمہ آڈےٹر جنرل آف پاکستان کے زےر اہتمام 97 وےں بین الاقوامی پرفارمنس آڈیٹنگ پروگرام کے افتتاحی سیشن سے خطاب اور بعد ازاںمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر ڈی جی پرفارمنس آڈٹ ٹریننگ شہزاد رضا سید ، عمران اقبال ، طلعت امتیاز ، روبینہ فیصل سمیت آڈیٹرز کی کثیر تعداد بھی موجود تھی ۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان رانا اسد امین نے کہا کہ ہم وزیر اعظم کی ہدایت پر وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ کس وزارت نے تین سالوں میں کیا کام کیا اور اس کو کیا کرنا چاہیے تھا۔ہدف سے کم یا زیادہ کی ایک رپورٹ تیار ہو گی جو کہ پارلیمنٹ اور کابینہ میں زیر بحث آئے گی۔اب ہر وزارت کو چوکس ہو کر اپنے کام پر توجہ دینی ہو گی اور اسی طرح کارکردگی دکھانا ہو گی جیسا کہ وزیر اعظم چاہتے ہیں۔پہلے مرحلے مےں وزارت تجارت کا آڈٹ کےا جا رہا ہے جبکہ باقی تمام وزارتوں کی کارکردگی کا بھی آڈٹ کےا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ اگر ہمارا آڈٹ ڈیپارٹمنٹ درست سمت میں اور صحیح کام کرنا شروع کر دے تو محکمہ نیب اور ایف آئی اے کا کام آدھے سے بھی کم رہ جائے گا۔آڈٹ ڈےپارٹمنٹ کے پاس لوگوں کو پکڑ دھکڑ اور جائیدادیں قرق کرنے کا اختیار نہیں،یہ ایف آئی اے اور نیب کے پاس ہے ۔ہمارے آڈیٹرز آڈٹ کے دوران جب کوئی فراڈ یا بدانتظامی دیکھتے ہیں تو وہ رک جاتے ہیں اور متعلقہ سیکرٹری کو رپورٹ کرتے ہیں اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کر سکتے اور پھر پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کو بتاتے ہیں جو کہ دو سال بعد معاملہ زیر بحث لاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ بد انتظامی کے خاتمہ اورکرپشن کو پکڑنے کے لئے نےب کے ساتھ اےم او ےو سائن کر رہے ہےں تاکہ ہم کسی بھی بد انتظامی کے ظاہر ہونے پر ساتھ ہی مقدمہ ان کے سپرد کردیا جائے تاکہ وہ تفتیش اور کیس کے دوران اس سے مدد حاصل کریں اور اس کو منطقی انجام تک پہنچائیں تاکہ اس بات کا پتہ لگایا جاسکے کہ اصل حقیقت کیا ہے ، اگر کوئی فراڈ کرنے کی سوچ بھی رکھتا ہو تو وہ نہ کر سکے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے کہا کہ انہوں نے صوبہ سندھ اور خیبر پختونخواہ کا دورہ کیا ہے اور وزرائے اعلی سے ملاقاتےں کی ہےں جبکہ ان صوبوں میں پبلک اکاﺅنٹس کمیٹیاں متحرک ہو چکی ہےں ۔ ان سے کہا ہے کہ پرانی آڈٹس رپورٹ کافی تاخیر کا شکار ہو گئی ہیںجن کو حل کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔ اس سال سے آڈٹ کے تسلسل کو بہتر بنایا جائے تاکہ جو بھی رپورٹ بنے اگلے سال اس کو زیر بحث لایا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالہ آڈٹ رپورٹ میں سے کچھ افراد ریٹائریا وفات پا چکے ہیں جبکہ کچھ پکڑے ہی نہیںگئے اس لیے ہم نے احتساب کا عمل تیز کر دیا ہے اور اگلے سال سے ہم رواں سال کے مطابق آڈٹ کرنا شروع کریں گے۔ انہوںنے ٹوکیو اور جکارتہ میں پاکستان کے سفارتخانوںکی عمارات کی غیر قانونی فروخت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں بتایا کہ اس کا پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے نوٹس لے چکی ہے جس پر محکمہ نیب کے ڈائریکٹر جنرل نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ 30مارچ تک ہم اس رپورٹ کو حتمی شکل دے لیں گے اور اس میں جو بھی ذمہ دار ٹھہرا اس کو گرفت میں لیں گے اور ریکوری کریں گے۔ قبل ازیں خطاب کرتے ہوئے آڈیٹر جنرل پاکستان نے بتایا کہ 1981ءسے اب تک پاکستان 33 ممالک کے 330 افسران کو آڈٹ کی تربیت دے چکا ہے اور یہ 97 واں کورس ہے جو ہر سال پاکستان منعقد کراتا ہے ۔یہ تربےتی پروگرام 18جنوری سے12فروری تک جاری رہے گا جس میںبھوٹان،بنگلہ دےش، بھوٹان، نےپال،ترکی،افغانستان اورکرغزستان نے شرکت کی ہے جن کو ہمارے افسران تربیت دے رہے ہیںاور اس سے پاکستان کو دنیا میں پذیرائی حاصل ہو گی۔ انہوںنے کہا کہ پوری دنےا مےں پرفارمنس آڈٹ میں پاکستان علمبرداری کی حیثیت رکھتا ہے۔اس سے پہلے پرفارمنس آڈٹ چھوٹے اداروں کے ہوا کرتے تھے جس طرح سکول، ہسپتال وغیرہ لیکن اس دفعہ ہم وزارتوں کی سطح پر کارکردگی کا جائزہ لیں گے کیونکہ ہر وزارت کے مقاصد متعین ہوتے ہیں کہ اس نے پانچ سالوں میں کیا اہداف حاصل کرنے ہیں اور وہ اس میں کس حد تک کامیاب رہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر ہم نے ان کو یہ رپورٹ پیش کرنی ہے جو رپورٹ تیار ہو گی وہ پارلیمنٹ اورکابینہ میں پیش کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ہر وزارت کے اہداف مقرر ہوتے ہیںہیں کہ وہ کتنا بزنس لائے گی، اس پر آج تک کسی نے آڈٹ نہیں کیا۔