نئی دہلی(نیوزڈیسک) پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیرکے حل کے لئے ایک بار پھر خفیہ سفارت کاری کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور بیک ڈور ڈپلومیسی کے کرداروں کو حکومتوں نے ایک بار پھر متحرک کر دیا ہے تاکہ مسئلہ کشمیر کا ایسا ”آو¿ٹ آف بکس“حل تلاش کیا جائے جو تمام فریقوںکے لئے قابل قبول ہو، بات چیت سے دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کو بھی آگاہ رکھا جائے گا اور اس بات چیت کو ان کی مکمل سرپرستی حاصل ہوگی۔ ایک میڈیارپورٹ کے مطابق اگرچہ دونوں ملکوں نے بظاہر کشمیر سے لیکر دہشت گردی تک کے موضوعات کو زیر بحث لانے کے لیے مذاکراتی عمل کی نئے نام کے ساتھ بحالی کا اعلان کیا ہے تاہم ان بات چیت میں مسئلہ کشمیرپر صرف اعتماد سازی کے اقدامات پر ہی بات چیت ہونے کا امکان ہے جبکہ اس پیچیدہ مسئلے کا حل اعلیٰ سطحی حلقے بیک ڈور ڈپلومیسی کے دوران تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندرمودی اور میاں نوازشریف نے کشمیر کے مسئلے پر گہرائی کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کے لیے خفیہ بات چیت شروع کرنے کافیصلہ کیا جس پر پس پردہ رابطے شروع کر دیئے گئے ہیںذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹری مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کریں گے تاہم ان کی بات چیت صرف اعتماد سازی کے اقدامات اورلائن آف کنٹرول کے دونوں طرف سے صورتحال کی بہتری اور قیام امن تک محدود رہے گی ۔ ذرائع کے مطابق جہاں تک کشمیر سے جڑے پیچیدہ معاملات کا تعلق ہے ۔ ان کے بارے میں خفیہ سفارتکاری کے ذریعے خیالات کا تبادلہ کرکے کسی ممکنہ حل تک پہنچنے کی کوشش کی جائے گی ۔ واضح رہے کہ ماضی میں بھی دونوں ملکوں نے کشمیر کے معاملے پرجمود کو توڑنے اور اس مسئلے کے حل کے لیے خفیہ بات چیت کا سہارا لیا تھاحتیٰ کہ سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری کے مطابق دونوں ملکوں نے کشمیر کے مسئلے کا ایک حل تلاش کرلیا تھا مگر اس ضمن میں باقاعدہ معاہدہ پر دستخط ہوتے ہوتے رہ گئے ۔ اس دور میںبھارت کے سابق وزیراعظم ڈاکٹرمن موہن سنگھ کے خصوصی ایلچی ایس کے لامبانے صدر مشرف کے ایلچی طار ق عزیز کے ساتھ دوبئی اور کھٹمنڈومیں دو درجن ملاقاتوں اور 200گھنٹوں کی بات چیت کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں ایک سمجھوتے کا مسودہ تیار کیا تھا اور توقع ہے کہ خفیہ سفارتکاری کے اس میدان میں بھی ان تجاویز کا جائزہ لے کر انہیں حتمی شکل دیئے جانے کا امکان ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس حوالہ سے دونوں ملکوں کے بیک ڈور ڈپلومیسی کے کرداروں کی ملاقاتیں وقتاً فوقتاً دوبئی، کھٹمنڈو اور بنکاک میں ہونے کا امکان ہے جبکہ اس دوران بات چیت سے دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کو بھی آگاہ رکھا جائے گا اور اس بات چیت کو ان کی مکمل سرپرستی حاصل ہوگی۔