اتوار‬‮ ، 12 جنوری‬‮ 2025 

ایٹمی دھماکہ نہ کرنے کے سمجھوتے پر دستخط ،امریکہ نے پاکستان کیلئے نیا ”جال“ تیار کرلیا

datetime 11  اکتوبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

واشنگٹن(این این آئی)امریکی تھنک ٹینک سٹمسن سنٹر کے شریک بانی مائیکل کرپانا نے پاکستان کو تجویز دی ہے کہ وہ ایٹمی دھماکہ نہ کرنے کے سمجھوتے پر دستخط کر دے تاہم توثیق کو بھارت سے مشروط کر دے تو اس طرح دنیا بھارت پر دباو¿ ڈال سکتی ہے اور وہ نیوکلیئر سپلائر گروپ میں بھی نہیں بیٹھ سکے گا اور اس حوالہ سے تمام تر فیصلے قومی مفاد کے ساتھ ساتھ معاشی صورتحال کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے کرے۔امریکی میڈیا کو ایک انٹرویومیںہم نے پاکستان کو یہ تجویز بھی دی ہے کہ وہ اپنے جوہری مواد کی ضروریات پر نظر ثانی کرے۔ پاکستان کے پاس چار ایسے پلوٹونیم ری ایکٹر ہیں، جن کا مقصد صرف ہتھیار بنانا ہے جبکہ بھارت کے پاس اس نوعیت کا صرف ایک ری ایکٹر ہے۔ پاکستان کو جوہری ہتھیاروں میں بھارت پر سبقت حاصل ہے لیکن بھارت کے پاس جوہری ہتھیاروں کی سطح کی پلوٹونیم تیار کرنے والے بہت سے ری ایکٹرز موجود ہیں۔بھارت کو پرامن شہری مقاصد کے لیے ملنے والے جوہری ری ایکٹروں کا مفاد بھی حاصل ہے لیکن مجھے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ بھارت انہیں بم بنانے کے لیے استعمال کرسکتا ہے، اگرچہ ایسا کرنے کے لیے اسے اپنی بجلی کی پیداوار کی قربانی دینی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے جوہری پروگرام پر یہ رپورٹ لکھنے کا میرا مقصد یہ تھا کہ میں وہاں کے اپنے دوستوں کو یہ کہوں کو وہ اپنے جوہری پرو گرام پر، اس کے مختلف پہلوو¿ں پر ایک بار پھر نظر ڈال کر یہ دیکھیں کہ یہ پروگرام ان کے ملک کے مستقبل اور سیاست پر کس طرح پورا اترتا ہے۔ پاکستان کا جوہری پروگرام کامیابی کی ایک داستان ہے۔ پاکستان نے دنیا بھر کے ہر قسم کے دباو¿ کا مقابلہ کرتے ہوئے جوہری قوت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس وقت پاکستان کے پاس معقول تعداد میں جوہری ہتھیار موجود ہیں جن کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 100 سے زیادہ ہے۔ اور اس کے پاس ایسا ڈھانچہ موجود ہے جس سے وہ مزید بہت سے ہتھیار تیار کرسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ میں ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ ہم پاکستان میں اپنے دوستوں سے یہ کہیں کہ ٹھیک ہے آپ نے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔اب آپ کو یہ سوچنا چاہیے کہ جوہری ہتھیار ہمیں کیا صلہ دے سکتے ہیںاور ان ہتھیاروں سے ہمارے لیے کیا کچھ ممکن ہوسکتا ہے۔ کیا ان کے ذریعے ہم ان ملکوں کے کلب میں اپنے لیے جگہ حاصل کرسکتے ہیں، جن کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے۔جوہری عدم پھیلاو¿ کے معاہدے پر دستخطوں کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں کے بارے میں پاکستان کا مو¿قف یہ ہے کہ ہم اس معاہدے پر بھارت کے بعد دستخط کریں گے یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ دستخطوں کا فیصلہ بھارت کرے گا اور پھر ہم اس کے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔ہم نے اپنی رپورٹ میں یہ نہیں کہا کہ وہ ضرور دستخط کریں بلکہ انہیں یہ مشورہ دیا ہے کہ آپ ان پہلوو¿ں پر غور کریں۔ ہمیں معلوم ہے کہ پاکستان کے لیے یہ معاملات بہت دشوار ہیں۔ میں نے اپنی رپورٹ میں انہیں سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں کا مشورہ اس لیے دیا ہے کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں نے 1998ءمیں اپنے ہتھیاروں کو ٹیسٹ کیا تھا۔ ان 17 برسوں کے دوران کوئی ایسا اشارہ سامنے نہیں آیا کہ وہ اپنے ہتھیاروں کو دوبارہ ٹیسٹ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اس لیے ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ پاکستان کی قومی سلامتی کے مفاد میں ہے کہ وہ بھارت کے لیے جوہری ہتھیاروں کے دوبارہ ٹیسٹ کا راستہ روک دے۔ اس میں پاکستان کا مفاد یہ ہے کہ ابھی بھارت جوہری اسلحے کے میدان میں اس سے کافی پیچھے ہے اور اسے اس حوالے سے کافی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ اگر پاکستان اپنے جوہری ہتھیاروں کو دوبارہ ٹیسٹ نہیں کرتا تو وہ زیادہ فائدے میں رہتا ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف بھارت کے لیے جوہری تجربے کرنا مشکل ہوجائے گا، بلکہ پاکستان کو اس کا فائدہ پہنچے گا۔پاکستان اور بھارت دونوں نیوکلیئر سپلائر گروپ کے ساتھ میز پر بیٹھنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے امکانات زیادہ ہیںکیونکہ اس کے پاس ایک بڑی مارکیٹ ہے جبکہ پاکستان یہ نہیں چاہتا کہ بھارت اس کے بغیر اس گروپ کے ساتھ بیٹھے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کے لیے ایک زیادہ فعال سفارت کاری تجویز کی ہے اور وہ یہ ہے کہ بھارت کو ایک ایسی صورت حال کی جانب دھکیلا جائے کہ وہ پاکستان کی پیروی کرنے پر مجبور ہوجائے۔ ایسا کرنے سے پاکستان نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شامل ہونے کا ایک اصول وضع کر سکتا ہے۔ یعنی اگر آپ اس گروپ کے رکن بننا چاہتے ہیں تو آپ جوہری عدم پھیلاو¿ کے معاہدے پر دستخط کریں۔ ہم نے یہ پہلو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ یہ قدم اٹھانا پاکستان کے لیے کتنا مشکل ہوسکتا ہے، اپنی رپورٹ میں دو انتہاءاہم شرائط تجویز کی ہیں۔ہماری پہلی تجویز یہ ہے کہ اگر پاکستان مناسب سمجھے تو وہ معاہدے پر دستخط کردے لیکن، اس کی توثیق نہ کرے۔ اور وہ بھارت کی جانب سے توثیق کا انتظار کرے اور پھر دونوں ملک اپنی اپنی توثیق اکٹھی جمع کرائیں۔اس سے یہ ہوگا کہ پاکستان جوہری عدم پھیلاو¿ کے معاہدے پر اکیلا دستخط نہیں کرے گا، بلکہ بھارت بھی اس کے ساتھ شامل ہوگا۔ لیکن، اس سلسلے میں پہل پاکستان کی جانب سے ہوگی۔ہماری جانب سے پیش کی جانے والی دوسری اہم تجویز یہ ہے کہ اگر پاکستانی قیادت جوہری عدم پھیلاو¿ کے معاہدے پر توثیق کے بغیر دستخط کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو وہ اپنے عوام سے یہ کہہ سکتی ہے کہ ہم خود کو ایک ذمہ دار جوہری ریاست ثابت کرنے کے لیے یہ انتہائی غیر معمولی قدم اٹھا رہے ہیں لیکن اگر بھارت ہماری تقلید نہیں کرتا اور اگر بھارت جوہری تجربہ کرتا ہے تو ہم معاہدے میں درج اعلیٰ ترین قومی مفاد سے متعلق شق کے تحت اس معاہدے سے الگ ہوجائیں گے۔ آپ اپنے عوام سے یہ وعدہ کرسکتے ہیں کہ اگر بھارت جوہری تجربہ کرتا ہے تو ہم بھی جوہری تجربہ کریں گے۔ پاکستان کا اس وقت بھی یہی موقف ہے کہ بھارت کی جانب سے جوہری تجربے کی صورت میں وہ بھی ایسا ہی کرے گا۔اس لیے ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کو اپنا موقف تبدیل کیے بغیر آپ جوہری عدم پھیلاو¿ کے معاہدے پر دستخط کرسکتے ہیں۔ اور اس سے بین الاقوامی برداری میں آپ کے ملک کا تشخص بدل سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان تجاویز کے حوالے سے ہماری یہاں واشنگٹن میں، اور پاکستان اور بھارت سے بات ہوئی ہے۔میرا نہیں خیال کہ امریکی حکومت اس کی اعلانیہ تائید کرے گی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ نجی طور پر ان میں سے کچھ تجاویز کو فائدہ مند سمجھے۔ میرا نہیں خیال کہ ان تجاویز پر غور کرنا پاکستان کے لیے مشکل ہو سکتا ہے۔ اگر پاکستانی حکام جوہری ہتھیاروں کی کسی مخصوص تعداد پر متفق ہوجاتے ہیں تو وہ اس سلسلے میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ یہ آپ کو طے کرنا ہے کہ اپنی جوہری ضروریات کے لیے آپ کو کیا کچھ درکار ہے۔ آپ وہی کچھ کریں جس کی آپ کو ضرورت ہے۔ میں اپنے پاکستانی ساتھیوں سے صرف یہ کہہ رہا ہوں وہ اس بارے میں ایک بار پھر سوچیں کہ انہیں کس چیز کی ضرورت ہے۔اور اگر آپ نے وہ کچھ حاصل کرلیا ہے جس کی آپ کو ضرورت ہے تو پھرہم آپ کو یہ تجویز دیتے ہیں کہ ان پہلوو¿ں پر بھی غور کریں اور ہم انہیں یہ مشورہ بھی دے رہے ہیں کہ وہ ان فنڈز کو دوسرے امور پر صرف کریںلیکن میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں پاکستان پر کوئی دباو¿ نہیں ڈال رہا۔ میں پاکستان کا دوست ہوں اور میں پاکستان کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ وہ اپنی سیکیورٹی اور دنیا میں اپنی پوزیشن کو بہتر بنانے کے لیے آگے بڑھیں لیکن ضروری نہیں ہے کہ وہ میری بات مانیں۔ میرا کام انہیں اپنی تجاویز دینا ہے۔ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی ملک یہ ضمانت دینے کے لیے تیار ہوگا کہ پاکستان کی جانب سے سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے کی صورت میں بھارت بھی ایسا ہی کرے گا۔ آپ اس بات کی ضمانت کے لیے چین سمیت دنیا میں کسی کی بھی جانب نہیں دیکھ سکتے۔ چین اس وقت کہاں تھا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان شدید نوعیت کا بحران تھا اور اعلیٰ پاکستانی عہدے داروں کو بیجنگ جانا پڑا تھا۔ پاکستان کو اپنی ضمانتیں خود مہیا کرنی ہوں گی۔ لیکن، میں آپ کو یہ بتانا چاہوں گا کہ اگر پاکستان سی ٹی بی ٹی پر دستخط کر دیتا ہے اور اس کی توثیق نہیں کرتا، اور بھارت کا انتظار کرتا ہے، اور یہ کہتا ہے کہ اگر بھارت جوہری تجربہ کرے گا، تو ہم بھی کریں گے۔ تو پھر اگر بھارت این ایس جی کی رکنیت حاصل کرنے جاتا ہے تو میں اس چیز کی ضمانت دیتا ہوں کہ اسے رکنیت نہیں ملے گی، تاوقتیکہ وہ معاہدے پر دستخط نہیں کردیتا۔پاکستان کے جوہری نظریہ کا ذکر کرتے ہوئے امریکی ماہر نے کہا کہ پاکستان نے اپنے جس جوہری نظریہ کا اعلان کیا ہوا ہے اس میں بنیادی طور پر یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان بھارت کی جوہری استعداد کو سامنے رکھ کر اپنی قومی دفاعی ضرورت کے پیش نظر اتنی محدود تعداد میں جوہری ہتھیار رکھیں گے جس کی اسے ضرورت ہے۔ اس نظریہ کے مطابق پاکستان چھوٹے بڑے ہتھیاروں کے حوالے سے اسی تناسب سے ہتھیار رکھنا چاہتا ہے جتنے اسے توازن قائم رکھنے کے لیے درکار ہیں۔ دوسرے لفظوں میں گویا بھارت یہ طے کر رہا ہے کہ پاکستان کتنے جوہری ہتھیار رکھے۔ان کا موقف تھا کہ ہمارے خیال میں کمزور معیشت کے حامل ایک ملک کے لیے یہ کوئی اچھا نظریہ نہیں ہے۔ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو یہ سوچنا چاہیے کہ اسے جوہری ہتھیاروں کی کیا قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ اب تک کے حالات و واقعات کے مطابق جوہری ہتھیار، روایتی محدود جنگوں، پراکسی لڑائیوں اور کسی بھی طرح کے تنازعوں کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ جوہری ہتھیار رکھنا محض ایک عیاشی ہے۔ پاکستان جس تیزی سے جوہری ہتھیار بنا رہا ہے، اس کے پیش نظر یہ خدشات موجود ہیں کہ بھارت اپنے جوہری ری ایکٹروں کو بجلی کی بجائے بم سازی پر لگادے گا۔ اس لیے ہم پاکستان سے یہ کہہ رہے ہیں وہ اس پہلو پر سنجیدگی سے سوچیں کہ انہیں کتنے جوہری مواد کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ بھارت کی معیشت اس سے نو گنا بڑی ہے۔



کالم



پہلے درویش کا قصہ


پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…