پاکستانی فوج کی سیاسی قوت بڑھ گئی،برطانوی میڈیا کی خصوصی رپورٹ

28  ستمبر‬‮  2015

لندن (این این آئی)بعض اسے فوجی پس منظر سے حکمرانی کہتے ہیں جبکہ دوسرے اسے فوجی جرنیلوں اور سیاست دانوں کے درمیان قوم کے مفاد میں مل جل کر کام کرنے کا نام دیتے ہیں لیکن کسی بھی نظریے سے دیکھیں اس بات سے انکار نہیں کہ پاکستانی فوج کی سیاسی قوت بڑھتی جا رہی ہے،بعض افراد فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی ابھرتی شخصیت کے حوالے سے بھی خوفزدہ ہیں،اس کی ابتدا 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی سکول پر پاکستانی طالبان کے حملے سے ہوئی جس میں 140 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے۔اس کے چند روز بعد ہی سویلین قیادت نے 20 نکات پر مبنی ایک ’نیشنل ایکشن پلان‘ تیار کیا، جس کا مقصد شدت پسندوں سے نمٹنا، ان کے بیانات کو لگام ڈالنا، دینی مدارس کو کنٹرول کرنا اور ان کی مالی حالت کو کمزور کرنا ہے،وزیراعظم نواز شریف نے جب اس قومی منصوبے کا اعلان کیا تو کہا تھا کہ اب پاکستان اچھے طالبان اور برے طالبان میں کوئی فرق نہیں کرے گالیکن حقیقت میں حکومت اب بھی اسی پالیسی پر آمادہ ہے اور کارروائی کرنے کے لیے اپنی پسند کا انتخاب کرتی ہے۔برطانوی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اس بات سے واقفیت کی بنا پر کہ شہری عدالتیں جہادیوں کو سزا دینے میں غیر دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہیں، پارلیمان نے فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آئین میں ترمیم کا بل منظور کیا۔اس کے بعد فوج نے ایک ایسی اعلیٰ کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا جو سرکردہ سیاسی رہنماو¿ں، نوکر شاہی، خفیہ ایجنسیوں اور فوج کے حکام پر مشتمل ہے۔حکومت نے اس سمت میں کارروائی کرتے ہوئے اب تک تقریباً 50 ہزار شدت پسندوں کو یا تو حراست میں لیا ہے یا پھر وہ گرفتار کیے گئے ہیں۔کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کیا ہے جس کے متعلق عام خیال یہی ہے کہ یہ ماورائے عدالت قتل تھا۔ان سخت کارروائیوں سے انتہا پسندوں کے تشدد کی سطح میں کمی بھی آئی ہے۔اس سب کے لیے پاکستانی میڈیا نے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے کردار کو سراہا اور اب فوج عوام کی بڑھتی ہوئی اس حمایت سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔لیکن جن لوگوں کو توقعات تھیں کہ پشاور حملہ ایک اہم موڑ ثابت ہوگا ان میں سے بہت سوں کو اب نہیں لگتا کہ اس نیشنل ایکشن پلان سے دیرپا تبدیلیاں آئیں گی۔اس سے قبل 2007 میں جنرل مشرف کے دور میں بھی دسیوں ہزار شدت پسندوں کو حراست میں لیا گیا تھا جنھیں بعد میں رہا کر دیا گیا تھاچونکہ حکومت کے پاس ان سے تفتیش کرنے کی صلاحیت میں کمی ہے اس لیے دوبارہ پھر وہی ہو سکتا ہے جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے جب اس قومی منصوبے کا اعلان کیا تو کہا تھا کہ اب پاکستان اچھے طالبان اور برے طالبان میں کوئی فرق نہیں کرے گالیکن حقیقت میں حکومت اب بھی اسی پالیسی پر آمادہ ہے اور کارروائی کرنے کے لیے اپنی پسند کا انتخاب کرتی ہے۔ان جہادی دھڑوں کو نشانہ نہیں بنا تی جو متنازع کشمیر میں بھارتی فوج کو نشانہ بناتے ہیں۔ اسی طرح ان طالبان کو بھی آزاد چھوڑا ہوا ہے جو افغانستان میں حملے کرتے ہیں، جیسے حقّانی نیٹ ورک، جو کابل پر حملوں کے لیے مورد الزام ٹھہرائے جاتے رہے ہیں۔اس میں سب سے زیادہ متنازع لشکر طیبہ کا گروپ جماعت الدعوة ہے، جس پر 2008 میں ممبئی پر حملوں کا الزام ہے لیکن اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔تنظیم کے سربراہ حافظ سعید کے بیانات پاکستانی میڈیا میں اکثر شائع ہوتے رہتے ہیں۔عمر شیخ کے خلاف بھی مزید قانونی کارروائی کی توقع کم ہی ہے جنھیں 2002 میں وال سٹریٹ جرنل کے صحافی ڈینیئل پرل کی موت کے لیے قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔ ان کی اپیل ایک زمانے سے پڑی ہوئی ہے۔رپورٹ کے مطابق ممتاز قادری، جنہوں نے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کا قتل کیا تھا، ان پر بھی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ نہ تو فوج اور نہ ہی سویلین حکومت قادری کے مقدمے کو نیشنل ایکشن پلان میں شامل کرنے کا رسک نہیں لے سکتی کیونکہ اسے عوام کی حمایت حاصل ہے۔نجی گفتگو میں حکام اس طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ ان کی ترجیح وہ شدت پسند ہیں جو پاکستان کو نشانہ بناتے ہیں لیکن اس دعوے پر بھی سوال اٹھتے رہے ہیں۔نیشنل ایکشن پلان کے اثرات پاکستانی فوج اور حکومت کے درمیان رشتوں پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے نمائندے شکایت کرتے ہیں کہ انہیں فیصلہ سازی کے عمل سے بالکل الگ کر دیا گیا ہے۔بعض افراد فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی ابھرتی شخصیت کے حوالے سے بھی خوفزدہ ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے تقریبا تمام علاقوں میں ان کے پوسٹرز بل بورڈز پر لگائے گئے۔ کئی پراسرار ویب سائٹ، جنہیں فوج کی تصاویر تک آسان رسائی حاصل ہے، ان کی تعریف کے پ±ل باندھے رہتے ہیں۔فوج نے تعلقات عامہ کا اپنا شعبہ بھی پہلے سے بہتر کیا ہے اور جہادیوں کے خلاف وہ اپنی مہم کے لیے قومی جذبے سے سرشار نغمے بھی تیار کرتا ہے۔پاکستان کا ایک آزاد خیال طبقہ ان تمام سرگرمیوں سے تشویش میں بھی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ جہادیوں سے نمٹنے کی ہر حکمت عملی پر فوج کی چھاپ اس لیے ہے کیونکہ سویلین حکومت اپنی طرف سے کوئی بھی متاثر کن حکمت عملی وضع کرنے میں ناکام رہی ہے۔فوج کے لیے عوام کی بڑھتی حمایت کا اثر ذرائع ابلاغ پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ بہت سے تو فوج کو ناراض کرنے سے متعلق اتنے نروس ہیں کہ اپنی براہ راست نشریات میں تیس سیکنڈ کی تاخیر سے کام لیتے ہیں تاکہ ضرورت کے مطابق کسی خاص آواز یا بات کو دبایا جا سکے۔یہ احکامات پہلے جہادیوں کے انٹرویوز کو روکنے کے لیے تھے لیکن اب انہیں فوج کی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا تا ہے۔ نہ تو فوج اور نہ ہی سویلین حکومت قادری کے مقدمے کو نیشنل ایکشن پلان میں شامل کرنے کا رسک نہیں لے سکتی کیونکہ اسے عوام کی حمایت حاصل ہے۔رپورٹ کے مطابق فوج کے اس قدر اوپر اٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ اتنے مضبوط مینڈیٹ کے باوجود وزیراعظم نواز شریف اپنی خود کی بعض پالیسیوں کو نافذ نہیں کر پا رہے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ بھارت کے ساتھ پاکستا ن کے رشتے اچھے ہوں لیکن فوج نے بھارت کے ساتھ کسی بھی بات چیت میں مسئلہ کشمیر کو ترجیح دینے کی شرط لگا دی۔نواز شریف کو پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کرنے سے بھی باز رکھا گیا جنہوں نے انھیں اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا کیونکہ فوج نہیں چاہتی تھی کہ ان کے سابق سربراہ پر بغاوت کا مقدمہ چلے۔فی الوقت فوج اور حکومت پر احتیاط سے بس ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں۔ وہ ایک ساتھ کام تو کر رہے ہیں لیکن اس لیے کہ سیاست دانوں کو یہ خوف ستاتا رہتا ہے کہ اگر فوج کے ساتھ اختلافات رونما ہوئے تو پھر سے تختہ پلٹنے کی نوبت آ سکتی ہے۔بعض لوگ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ آخر کب تک یہ صورت حال برقرار رہ سکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کہتی ہیں کہ ہم نے تاریخ سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ہماری فوج کو صرف طاقت نہیں چاہیے بلکہ وہ مکمل اور بلا شرکتِ غیرے طاقت کی خواہشمند ہے۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…