36 فیصد افراد پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کو کامیاب کرناچاہتے ہیں۔ اِسی سے ملتا جلتا نتیجہ پلس (PULSE)کنسلٹنٹ کے سروے میں بھی سامنے آیا۔جس کے مطابق اس حلقے سے 57 فیصد افراد پاکستان مسلم لیگ (ن) اور 36 فیصد پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ این اے 125 لاہور آٹھ کی بات کریں تو 2013 میں یہاں سے خواجہ سعد رفیق کامیاب ہوئے تھے جبکہ پی ٹی آئی کے حامدخان دوسرے نمبر پر آئے تھے۔حامد خان نے الیکشن ٹریبونل میں عذرداری دائر کی اور فیصلہ اپنے حق میں لینے میں کامیاب ہوئے۔ اس حلقے میں گیلپ پاکستان کے سروے کے مطابق دوبارہ انتخاب کے نتیجے میں 56 فیصد افراد پاکستان مسلم لیگ (ن) جبکہ 30 فیصد افراد پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ اگر پلس کنسلٹنٹ کے سروے کو دیکھا جائے اس کے مطابق این 125 سے 57 فیصد افراد پاکستان مسلم لیگ (ن) اور 34 فیصد افراد پی ٹی آئی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ اب اگر این اے 154 لودھراں ایک کو دیکھیںتو یہاں سے آزاد امیدوارمحمد صدیق خان بلوچ نے پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین کو شکست دی تھی۔ صدیق خان بلوچ انتخابات کے بعد میں مسلم لیگ نواز میں شامل ہوئے۔ جہانگیر ترین نے انتخابی عذرداری دائر کی اور کامیابی حاصل کی۔ اس حلقے میں گیلپ پاکستان کے سروے کے مطابق یہاں پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ (ن) سے آگے نظر آتی ہے یہاں سروے میں شامل 36 فیصد افراد پاکستان مسلم لیگ (ن) اور 42 فیصدافراد پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر پلس کنسلٹنٹ کے سروے کو دیکھا جائے تو اس کے مطابق دونوں جماعتیں یہاں ایک دوسرے کے بالکل برابر نظر آتی ہیں۔ یہاں پاکستان مسلم لیگ نواز کو ووٹ دینے کی خواہش ظاہر کرنے والوں کی شرح 42 فیصد جبکہ پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دینے کا کہنے والوں کی شرح بھی 42 فیصد ہے یعنی جہانگیر ترین اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوسکتا ہے۔