ساز گار قرار نہیںدیاجس کاپہلامرحلہ30اکتوبرکوہوگا۔لہٰذا پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے ساتھ ان کی ملاقات میں اہم فیصلے ہوں گے اور وہ انہیں نیب ، ایف آئی اے اور رینجرز کی جانب سے کیے جانےوالے حالیہ کارروائیوں سے آگاہ کریں گے اور ساتھ ہی یہ کہ پارٹی کو اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں کیا موقف اختیارکرنا چاہیے، جس کا اجلاس وزیر اعظم نے10ستمبرکو طلب کیا ہے اور جس میں آرمی چیف بھی شرکت کریں گے۔سندھ کے سرکاری محکموں کو زمینوں پر قبضوں، بورڈ آف ریوینیو، فشریز، تعلیم اور صحت عامہ کے شعبوں میں 100ارب سے زائد کی انکوائریوں کا سامنا ہے اور کم از کم سندھ کے 8 وزرا اور انکے سیکرٹریوں سے تحقیقات جاری ہیں۔سندھ حکومت اس بات سے بھی بخوبی واقف نہیں ہےکہ ایم کیوایم کیا کررہی ہے ، لیکن ان اطلاعات کے بعد کہ وہ اپنی شکایات کاازالہ نہ ہونے پر کراچی صوبے کی تحریک کی منصوبہ بندی کرر ہی ہے ،تو صورتحال بےچینی اور سیاسی ٹوٹ پھوٹ کی طرف جاسکتی ہے۔ ایم کیو ایم اب یہ محسوس کرتی ہےکہ اسے اس سےزیادہ مشکل حالات کا سامنا ہے جتنا اس نے سوچا تھا ، الطاف حسین کی تقریر، بیان اور یہاں تک کہ ان کی تصویرپر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے، اس لیے اس کا کوئی مطالبہ مانے جانےکے امکانات بھی کم ہوگئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے کچھ رہنماؤں کاخیال ہےکہ حکومت سے مزید مذاکرات کابائیکاٹ کرنے اوراس مرحلے پر زرداری صاحب کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ تاہم ماضی کے برخلاف اس مرتبہ زرداری صاحب نے بھی سخت جواب دیا۔پیپلزپارٹی کے کچھ رہنما سمجھتے ہیں کہ یہ اقدام اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنےکی کوشش ہوسکتی ہے۔اگر پیپلز پارٹی استعفے دے یا سندھ اسمبلی تحلیل کردے تووہ غیر یقینی صورتحال پیدا کرسکتی ہے۔ لیکن اگر نظام چلا جائے تو کیا انہیں اس سے کوئی مدد ملے گی ، شاید نہیں۔ کیا پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم ایک مرتبہ پھر ہاتھ ملا سکتی ہیں ؟ اس سے ان دونوں جماعتوں کے مابین کشیدگی تو ختم ہوجائےگی لیکن وہ آپریشن رکواسکتی ہیں اور نہ ہی انہیں اسے سے کچھ مدد مل سکتی ہے۔اس لیےوزیراعلیٰ کچھ تجاویز کے ساتھ گئے ہیں،جن میں طرز حکمرانی بہتر بنانااور بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا کرنا، جن افسران اور وزرا کے خلاف انکوائریاں چل رہی ہیں، انہیں ہٹانا اور معاملات کو وزیراعظم اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے اٹھانا شامل ہیں۔ جہاں تک بدعنوانی کا تعلق ہے تو قائم علی شاہ کاریکارڈ اس ضمن میں صاف ہے لیکن وہ پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت کی جانب سے کچھ برے فیصلوں کا شکار ہیں۔سندھ حکومت اب بھی بلدیاتی انتخابات کی تاریخوں میں توسیع کی کوششیں کررہی ہے لیکن اگر ان کا انعقاد ہوتا ہے تو اسے اندرون سندھ میں برے نتائج نہ ملنے کاامکان ہے۔ لیکن اس سے انہیں اس ٹوٹ پھوٹ کی بابت خاطر خواہ معاونت نہیں ملے گی۔کیا وہ دبئی سے نئی ہدایات کے ساتھ واپس آئیں گے، جوکہ استعفوں کے حوالےسے فیصلے یا ماضی کے برخلاف نئی شروعات کرنے کے حوالے سے ہوں گے ۔لیکن معاملات پہلے کی طرح نہیں چلے گے۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں