اسلام آباد (نیوزڈیسک) ملک کے اعلیٰ سیاست دانوں کے خلاف شروع کئے گئے کوئی نصف درجن کرپشن کیسز اور سابق صدر پرویز مشرف کے ابتدائی دنوں میں قائم کچھ مقدمات جو نیب میں گھسیٹے جا رہے ہیں، وہ ہنوز ان کے سروں پر تلوار بن کر لٹکے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ دہائی اور نصف سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود نیب کے تحت ان کی تفتیش اور تحقیقات جاری ہیں۔ منگل کو نیب کی جانب سے سپریم کورٹ میں داخل سمری کے مطابق 150 کیسز کا تعلق مالی اور اراضی کے اسکینڈلز اور اختیارات کے بے جا و ناجائز استعمال سے متعلق ہیں۔ ان مقدمات کی سماعت ابھی تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی ہے جو ان کی ناقص پیروی اور ملزمان کے خلاف ٹھوس شہادتوں کا نہ ہونا ظاہر کرتی ہے۔معروف تجزیہ نگارطارق بٹ کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف نے بوجوہ اکتوبر 1999ء میں منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کے بعد ریاستی اداروں اور نیب کو شریف برادران کے خلاف استعمال کیا جو کہ سیاسی انتقامی کارروائیوں کا حصہ تھا۔ برسوں تک ان اداروں نے چھان بین کی لیکن ابھی تک ٹھوس ثبوت پیش نہیں کئے جا سکے اور یہ کیسز اب بھی تحقیق و تفتیش کے مرحلے میں ہیں۔ نیب سمری کے مطابق نواز و شہباز شریف اور دیگر کے خلاف 17 اپریل رائے ونڈ سے شریف خاندان کے فارم ہائوس تک سڑک کی تعمیر میں اختیارات کے ناجائز استعمال اور 12 کروڑ 56 لاکھ 60 ہزار روپے کے غبن کے مقدمے کی تحقیقات شروع ہوئی لیکن اس کا خاتمہ دکھائی نہیں دیتا۔ نیب نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ تحقیقات اب بھی جاری ہیں۔ یہ تحقیقات ایک مخبر یعنی انٹلی جنس ایجنسی کی اطلاع پر شروع کی گئی تھی۔ ایک اور تحقیقات جو جاری ہے اور جس کا اختیار اسے 18 دسمبر 1999ء کو ملا تھا، وہ میجر جنرل (ر) ایم ایچ انصاری کی شکایت پر ایف آئی اے میں غیرقانونی تقرریوں سے متعلق تھی۔ اختیارات کے ناجائز استعمال کے اس کیس میں کرپشن کی ملوث رقم کے بارے میں طے کیا جانا باقی ہے۔ 2001ء میں نیب کو 1990ء کی دہائی میں مسلم کمرشل بینک (ایم سی بی) کی فروخت میں بدعنوانی کے الزام میں میاں محمد منشا کے خلاف تحقیقات کا اختیار دیا گیا۔ اس میں بھی ملوث رقم کا طے ہونا باقی اور تحقیقات جاری ہیں۔ 11 فروری 2000ء کو اسحٰق ڈار کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور آمدنی سے بڑھ کر اثاثے بنانے پر کارروائی شروع ہوئی۔ اس میں دو کروڑ 30 لاکھ روپے، 34 لاکھ 88 ہزار پائونڈ اور 12 لاکھ 50 ہزارڈالر ملوث تھے۔ یہ تحقیقات ابھی تک جاری ہے۔ پرویز مشرف سے بہترین تعلقات کے باوجود گجرات کے چوہدری برادران شجاعت حسین اور پرویز الٰہی کے خلاف بھی تحقیقات شروع کی گئی۔ 12 اپریل 2000ء کو آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے پر مقدمہ قائم کیا گیا جس میں دو ارب 42 کروڑ 80 لاکھ روپے کی رقم ملوث تھی۔ 7 اکتوبر 2000ء کو سیف الرحمٰن کےتحت احتساب بیورو کے آفتاب شیرپائو کے خلاف قائم مقدمے کی تحقیقات شروع کی گئی۔ ان پر بھی معلوم ذرائع آمدن سے 10 لاکھ ڈالرز بڑھ کر اثاثے رکھنے کا الزام تھا۔ اسی طرح 15 اگست 2002ء کو حبیب بینک کے تین ارب روپے قرضے کی نادہندگی پر بھی یونس حبیب کے خلاف تحقیقات جاری ہے۔