جمعرات‬‮ ، 23 جنوری‬‮ 2025 

موبائل فون بیلنس پر ٹیکس کیوں بحال کیا؟ سپریم کورٹ نے وضاحت کردی،تفصیلی فیصلہ جاری

datetime 4  جولائی  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(اے این این ) سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موبائل فون بیلنس پر ٹیکس کٹوتی پر دیے گئے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے 11 جون 2018 کے ٹیکس معطلی کے فیصلے میں نہ ہی وجہ کو بیان کیا گیا اور نہ اس کا تعین کیا گیا کہ اس طرح کے ٹیکس کا نفاذ دائرہ کار کے بغیر ہے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے موبائل فون ٹیکس کٹوتی پر تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔تاہم سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے ایک رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی بات سے اختلاف کیا اور کہا کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184 (3) کے تحت اپنے اختیارات کو درست اور مناسب طریقے سے استعمال کیا چونکہ اس طرح کے اختیارات کے تمام شرائط کیس میں مکمل طور پر پورا اترتی تھیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بنیادی حقوق کی فراہمی اور عوامی نوعیت کے معاملات میں سپریم کورٹ کو اپنے اختیارات کا استعمال کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔واضح رہے کہ 11 جون 2018 کو اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دیامربھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر سے متعلق متفرق سماعت کے دوران موبائل فون ٹوپ اپ پر ود ہولڈنگ ٹیکس، سیلز ٹیکس اور سروسز چارجز کی کٹوتی کو معطل کردیا تھا۔عوامی شکایات پر سابق چیف جسٹس نے 3 مئی 2018 کو ایزی لوڈ اور اسکریچ کارڈ کے ذریعے موبائل فون بیلنس پر ٹیکسز اور دیگر چارجز کی کٹوتی سے متعلق کیس کی سماعت کا آغاز کیا تھا۔تاہم جسٹس قاضی فائز عیسی نے تفیصلی فیصلہ میں بتایا کہ کیوں 24 اپریل 2019 کو عدالت عظمی نے ٹیکسز کی کٹوتی کو بحال کردیا۔

انہوں نے عوامی اہمیت کے معاملات میں بنیادی حقوق کے نفاذ میں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کے غیرمعمولی دائرہ کار کے استعمال میں انتہائی احتیاط برتنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی چونکہ اس طرح کے فیصلوں کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہوتی۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ چونکہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائرہ کار کے استعمال کے دوران اس عدالت کی جانب سے دیے گئے حکم/فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہے۔

لہذا آئین کے تحت مقرر کی گئی حدود میں ہر احتیاط پر سختی سے عمل کیا جانا چاہیے۔انہوں نے اپنے 13 صفحات کے فیصلے میں بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے وضاحت کی جس میں سپریم کورٹ آرٹیکل 184 (3) کے تحت اپنے دائرہ کار کا استعمال کرسکتا ہے اور یہ پہلے ہی آئین کے باب 2 کے پہلے حصے میں بیان کیا گیا ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ان بنیادی حقوق میں کسی میں بھی ٹیکس سے تحفظ کا ذکر نہیں کیا گیا جبکہ قانونی افسروں کی جانب سے دیے گئے دلائل میں سے ایک سے اتفاق کیا جاتا ہے کہ ٹیکسز کو عوامی مفاد کے خلاف تصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ٹیکسز عوام کے فائدے کے لیے ہی خرچ ہوتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ عمومی طور پر آئین کی شقوں کے ساتھ مقننہ کی طرف سے عائد کیے گئے ٹیکس کے چیلنجز کو پورا کرنے میں سست ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ٹیکس نافذ کرنے والے قانون کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔تاہم جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ یہ ضروری نہیں ایسے معاملے میں درخواست دائر کی جائے جس میں عدالت کو کسی ذریعے سے کسی بھی معاملے کی معلومات موصول ہو۔انہوں نے کہا کہ اگر معاملہ عدالت کے نوٹس میں آتا ہے اور عوامی نوعیت کے معاملے میں آرٹیکل 184 (3) پر پورا اترتا ہے تو آئین عدالت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ نوٹس لے اور شہریوں کے اس طرح کے بنیادی حقوق کے نفاذ، ان کے تحفظ کے لیے احکامات جاری کرے۔

موضوعات:



کالم



اسی طرح


بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…