اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی وزیر دفاع انجینئر خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اس وقت عملاً سیکیورٹی اور انٹیلی جنس تعاون موجود نہیں ہے۔ یہ توقع کرنا کہ وزارت دفاع، امریکی سفارتخانے کو تعاون روکنے کے بارے میں نوٹس کے ذریعے مطلع کریگی تو ایسا نہیں ہوگا،تعاون کا تعین دونوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت پر ہوگا ،ہم بات چیت کیلئے ہمیشہ تیار ہیں، جمہوری اور مستحکم افغانستان پاکستان اور امریکہ کا مشترکہ مفاد ہے،
پاکستانی طالبان نے سرحد پار افغانستان میں پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں جہاں سے وہ اپنے ملک میں حملے کرتے ہیں،پاکستان میں اگر افغان طالبان کی پناہ گاہیں ہوئیں تو پاکستان انہیں اپنی سرزمین سے نکال باہر کریگا،پاکستان نے خطے سے القاعدہ کے خاتمے کیلئے امریکہ کیساتھ مل کر کام کیا اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان انٹیلی جنس تعاون بہت اہم تھا۔ایک انٹرویو میں وفاقی وزیر دفاع انجینئر خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اس وقت عملاً سکیورٹی اور انٹیلی جنس تعاون موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ توقع کرنا کہ وزارت دفاع، امریکی سفارتخانے کو ایک نوٹس کے ذریعے مطلع کریگی کہ اب ہم تعاون روک رہے ہیں تو ایسا نہیں ہو گا کیونکہ ایسا کسی نوٹس کے ذریعے شروع نہیں کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ تعاون کسی تحریری معاہدے کی بنیاد پر شروع نہیں کیا گیا تھا۔ یہ 2001ء میں جب نائن الیون کا واقعہ ہوا تو اس کے فورا بعد بغیر کسی تحریری معاہدے کے اس پر عمل شروع کردیا گیا تھا۔ انہوں نے کہ پاکستان نے امریکہ کو ہوائی اڈے بھی دیئے، ایئر لائنز بھی دے دیں اور زمینی راہداری بھی فراہم کی گئی اس کے علاوہ امریکہ کو بہت بڑاانٹلیجنس تعاون بھی فراہم کی گیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ تعاون کا تعین دونوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت پر ہو گا۔وفاقی وزیر نے امریکہ کی نائب معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسط ایشیائی امور ایلس ویلز کا رواں ہفتے
ہونیوالے دورہ پاکستان کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایلس ویلز نے سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے گفتگو شروع کی ہے تو ہم نے بھی ایسا ہی کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم بات چیت کیلئے ہمیشہ تیار ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کا ایک مشترکہ مفاد ہے جو کہ ایک مستحکم اور جمہوری افغانستان ہے۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تمام معاملات پر کھل کر بات چیت ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی طالبان نے سرحد پار افغانستان میں پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں جہاں سے وہ اپنے ملک میں حملے کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر سرحد کی دوسری جانب پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائی کی گئی تو امریکہ سے تعاون کی سطح بڑھ سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اگر افغان طالبان کی پناہ گاہیں ہوئیں تو پاکستان انہیں اپنی سرزمین سے نکال باہر کرے گا۔افغان طالبان کے ایک وفد کے رواں ہفتے دورہ پاکستان کی اطلاعات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے کہا کہ اس کا مقصد یہی ہے کہ کسی طرح افغانستان کی اندرونی سیاسی مفاہمت میں اگر پاکستان کوئی مفاہمت کرا سکتا ہے تو ہم وہ کریں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے خطے سے القاعدہ کے خاتمے کیلئے امریکہ کیساتھ مل کر کام کیا اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان انٹیلی جنس تعاون بہت اہم تھا۔