نیویارک (آئی این پی ) اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے افغانستان پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان پر الزام تراشی کے بجائے ملک میں سلامتی کی بگڑتی صورتحال پر قابو پانے پر توجہ دے، پاکستان خطے میں پر تشدد انتہا پسندی کے مشترکہ خطرے سے نمٹنے میں مدد دینے کیلئے تیار ہے،کابل حملے علاقائی امن اور سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہیں، افغانستان کو اپنے داخلی مسائل کو خارجی
مسائل قرار دینے سے اجتناب کرنا چاہیے، سلامتی کی تیزی سے بگڑتی صورتحال سے نہ صرف افغانستان بلکہ تمام ہمسایہ ممالک کیلئے بھی مسائل پیدا ہورہے ہیں، کابل پر حملوں سے ظاہر ہوتا ہے علاقے میں داعش کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ امریکی خبر رساں ادارے کو ایک انٹر ویو میں ملیحہ لودھی نے کہا دہشت گردی اور انتہاپسندی ایک مشترکہ دشمن ہے اور اس سے نجات کے لیے اس کے خلاف مل کر لڑنے کی ضرورت ہے۔ کابل حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ سیکیورٹی کی صورت حال میں تیزی سے رونما ہونے والا بگاڑ صرف افغانستان کے لیے ہی نہیں بلکہ ہمسایہ ملک پاکستان کیلئے بھی باعث تشویش ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات میں اضافے سے یہ نشاندی ہوتی ہے کہ علاقے میں داعش کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے بارے میں ہم کافی عرصے سے فکر مند تھے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گرد گروپ کی جانب سے کابل کے گرین زون میں ایک بڑا حملہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اس کے اندرونی حلقوں میں رابطے موجود ہیں جو بذات خود ایک تشویش کی بات ہے۔ انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ان حملوں کے پیچھے ان عناصر کا ہاتھ ہے جو امن اور مفاہمت کی ازسر نو کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور جو امن نہیں چاہتے۔
انہوں نے افغان حکومت کے طرزعمل کے حوالے سے کہا کہ افغان حکومت کو پاکستان پر الزام دھرنے کی بجائے اس بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ ہم اس سلسلے میں مدد دینے کو تیار ہیں لیکن افغانستان کو اپنے اندرونی مسائل کو باہر سے منسوب کرنے کا رویہ ترک کرنا ہوگا۔ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی ایک مشترکہ دشمن ہے اور اس سے نجات کے لیے اس کے خلاف مل کر لڑنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ان حملوں کے لیے وقت کا انتخاب یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ امن بات چیت کی نئی کوششوں کا آغاز نہ ہوسکے۔