اسلام آباد (آئی این پی) سینٹ میں اپوزیشن کی بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے آئندہ کی حکومت کو خوف زد ہ کرنے کے لئے ملک کو کنگال کرنے کا خدشہ ظاہر کردیا‘ بڑھتے ہوئے قرضوں کے اعداد و شمار انتہائی خوفناک ہیں ،وسائل سکڑتے جارہے ہیں‘ انتخابی بجٹ کے تحت ہر حکومتی رکن کو 50 کروڑ روپے کے فنڈ سے نوازا جائے گا، اس مقصد کیلئے 272 ارب روپے مختص کردیئے گئے ہیں‘
دفاعی بجٹ کے استعمال میں شفافیت احتساب جانچ پڑتال اور سوئلین نگرانی کا فقدان ہے، وزراء ہاؤس میں زیادہ سموسے پکوڑے کھانے کی وجہ سے ڈیڑھ دو ارب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ لی جارہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار شیری رحمن ‘ فر حت ا ﷲ با بر اور دیگر پی پی کے اراکین نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کیا بجٹ پر تقریر کرتے ہوئے۔ پی پی پی کی رہنما سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ پانامہ کیس کی موجودگی میں حکومت سے ویسے بھی کسی انقلابی بجٹ کی توقع نہیں تھی۔ مایوس کن بجٹ ہے ملک اندھیروں میں ہے۔ گردشی قرضہ 410 ارب روپے ہوگیا ہے۔ فرسودہ دعوے کئے گئے ہیں۔ اندھیروں میں رکھا کہ ہورہا ہے۔ لوگوں سے روزگار اور دو وقت ی روٹی چھیننے کے بعد امید بھی چھین گئے ہیں۔ غریب اور متوسط طبقہ کو ٹیکس کے حوالے سے ٹارگٹ کیا گیا ہے جاری خسارہ 10 ارب ڈالر بڑھ گیا ہے اعداد و شمار انتہائی خوفناک ہیں خساروں سے نکلنے کے لئے ایک اور ٹرم مانگ رہے ہیں آٹھ ارب ڈالر سے زائد مزید غیر ملکی قرضہ لینے کی بات ہورہی ہے کرنٹ خسارہ 26.9 ارب ڈالر ہے وسائل سکڑتے جارہے ہیں پسماندہ طبقات میں اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اشرافیہ اور غریبوں میں فاصلے بڑھ رہے ہیں کیونکہ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح بڑھ رہی ہے 82 فیصد ان ڈائریخٹ ٹیکسز ہیں حکومت نے شاہ کرچیوں کا سارا بوجھ غریبوں پر ڈال دیا ہے۔
پہلی حکومت ہے جس میں وزیر خزانہ کے تجارتی خسارہ بڑھنے پر خود کو تھپکی دی ہے کہ مشینری آرہی ہے غیر معمولی طور پر ملک کو مقروض کردیا گیا ہے۔ اتنے قرضے لے رہی ہے کہ آئندہ آنے والی حکومتیں خوفزدہ ہوجائیں کیسے ان کو ادا کریں گے پارلیمانی معاملے پر 27 فیصد وسائل مختص کرنے کا مقصد اپنے ارکان کو پچاس پچاس کروڑ دینا ہے انتخابی بجٹ ہے اس مقصد کے لئے 272 ارب روپے رکھے گئے ہیں
ہر وزارت نے 14 سے 20 فیصد زیادہ خرچ کیا ہے ملک کو کنگال کررہے ہیں شاہ خرچیاں بڑھ رہی ہیں وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات میں ڈیڑھ ارب روپے اضافہ ہوا ہے سموسے پکوڑوں پر لگاتے جارہے ہیں ۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ بجٹ دستاویز سیاسی بیانیہ ہے حکومت نے سیاسی بیانیہ دیا ہے کہ ہم سپریم کورٹ کو بندوق کے زور پر نشانہ بنائیں گے حکومت سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے خائف ہے کہ وزیراعظم کابینہ کی اجازت کے بغیر کوئی آئینی و قانونی ترمیم نہیں لاسکتے۔
اب وزیراعظم کو انتطامی مالیاتی اختیارات دینے کا قانون سپریم کورٹ کے فیصلے کو رد کرنے کے مترادف ہے بندوق کی طاقت کے زور پر اداروں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں ب سے حکومت بندوق اور س سے سپریم کورٹ مطلب لے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ تقریر 72 صفحات پر مشتمل ہے علامتی طور پر بھی فاٹا اصلاہات کے لئے ایک پیسہ بھی نہیں رکھا گیا بلکہ کابینہ سے منظور فاٹا اصلاحات کا تزکرہ تک نہ کیا گیا
کم از کم بھرم رکھنے کے لئے فاٹا اصلاحات کیلئے ایک لفظ بول دیتے یعنی فاٹا اصلاحات ڈھکوسلا ہیں شہریوں کے بنیادی حقوق پر بھی ڈاکہ ڈالا گیا ہے ۔ بجٹ میں انسانی حقوق قومی کمیشن کی آزادی کو سلب کرتے ہوئے ہیومن رائٹس انسٹی ٹیوٹ کے لئے پیسے رکھے گئے ہین حکومت نے امریکہ میں انسانی کمیٹی میں بیان دیا کہ پاکستان میں کوئی تشدد نہیں ہے قومی انسانی حقوق کمیشن نے ماورائے عدالت ہلاکتوں کی بات کی تو اس لئے بی اس کی آزادی کو سلب کیا جارہا ہے۔
پارلیمنٹ نے منہ مانگے دفاعی بجٹ دیئے ہیں مگر دفاعی اخراجات کی تفصیلات سے پارلیمنٹ کو آگاہ نہیں یا جاتا۔ دفاعی بجٹ کے حوالے سے شفافیت کا فقدان ہے احتساب اور پارلیمانی نگرانی کا بھی فقدان ہے اس کا بجٹ میں تذکرہ ہی نہیں ہے جب اعلیف فوجی افسران کی مراعات کا سوال اٹھایا اور اسے نیشنل سکیورٹی قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم خان نے بجٹ بحث میں
حصہ لیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز سلیم مانڈوی والا نے بھی بجٹ کے حوالے سے کوئی بڑی بات نہیں کی بلکہ گدھوں کی ضرور بات کی ان کی طرف سے سکولوں سے باہر بچوں کا معاملہ بھی اٹھایا گیا ہے ہے جو کہ اہم ہے۔ 2012-13 میں 26 ملین بچے اب دو کروڑ بیس لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں پنجاب میں 9.9 ملین‘ سندھ میں 6.6 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں خیبر پختونخوا میں 2.5 ملین بلوچستان میں 30لاکھ بچے سکولوں سے باہر کیوں ہیں
سندھ میں 59 فیصد سکولوں کی چاردیواری نہیں ہیں ہمیں سیاست سے بالاتر ہو کر تعلیم کو فروغ دینا ہے نجی شعبہ میں 800 ارب روپے تعلیم پر خرچ ہوتا ہے انہوں نے حکومت سے پنشن میں دس فیصد اضافہ کی تجویز دی انہوں نے نالج اکانومی کی ضرورت پر زور دیا پاکستان میں ہنر مند اور پیشہ وارانہ تعلیمی اداروں پر توجہ دینا ہوگی اس بارے میں چین ہر ممکن مدد کیلئے تیار ہے۔ قبائلی سینیٹر اورنگزیب خان نے دھمکی دی کہ اگر قبائل کو معاشی حقوق نہ ملے تو وہ اقدام کریں گے
جو حکومت کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا۔د ھرنوں اور احتجاج کی وجہ سے حکومت کے ہوش ٹھکانے پر آئے ہیں 2014 میں دھرنے کی وجہ سے تیل کی قیمتیں نہیں بڑھی تھیں بلکہ بجلی بھی سستی کردی گئی ہمیں این ایف سی سے اپنا حق دیا جائے میرے حلقے اپر اورکزئی میں 240 سکولز مسمار ہوچکے ہیں تعلیمی شعبہ تنزلی کا شکار ہے فاٹا پر رحم کھائیں قبائلی طلبہ کے لئے تعلیمی وظائف میں اضافہ کیا جائے۔
ایم کیو ایم کے میاں عتیق شیخ نے کہا کہ ٹھنڈی معاشی لیبارٹری میں یہ بجٹ تیار کیا گیا ہے بابوؤں نے تیار کیا ہے وزیر خزانہ نے پیش کردیا مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ پہلے تربوز پچاس روپے میں ملتا تا اب گئے تو وہی تربوز دو سو روپے میں خریدنا پڑا۔ مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر عائشہ رضا نے بجٹ کو عوام دوست قرار دیا اور کہا کہ ہر شعبے کے مسائل کے حل کا عزم کیا گیا ہے ایم کیو ایم کے سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ کم از کم معاوضے میں اضافہ دکھاوے کے لئے ہیں
کسی گھریلو ملازم ڈرائیور باورچیوں کسی کو پندرہ ہزار کی تنخواہ نہیں ملتی یہ طبقہ صرف پانچ چھ ہزار روپے کی تنخواہیں لے رہے ہیں پانچواں بجٹ ہے پہلے بجلی زیادہ تھی اب کم ہوگئی ہے پیسہ کہاں گیا چھ لائن کی بڑی بڑی سرکیں ہونگی عوام دو بکریاں لیکر سڑک کنارے کھڑی ہونگی اور وہ ان کی بڑی بڑی مرسیڈیز گاڑیوں کو دیکھیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر غوث محمد نیازی نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان آنے سے گریزاں تھے تمام اقصادی اشاریے مثبت ہیں سینیٹر محسن لغاری نے بھی قرضوں کی شرح بڑھانے کا مطالبہ کیا۔