اسلام آباد(آئی این پی)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکر ٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے کہا ہے کہ سعودیہ ایران کیساتھ تعلقات میں برابری پاکستان کیلئے مشکل ہے ،اسلامی اتحاد نہ کسی ملک کیخلاف ہے نہ کسی ملک کیلئے ہے،پاکستان ایران کے مفادات کیخلاف نہیں جائیگا ،ہمارے ریٹائرڈ فوجی بھی ایران کیخلاف نہیں لڑیں گے، امریکی دباؤکے تحت پاک ایران گیس پائپ لائن پرکام نہیں روکا،
انہوں نے کہاکہ مسئلہ عالمی پابندیاں ہیں ،اسلامی اتحاد کے رکن ممالک کی تعداد41ہوگئی ہے،پاکستان مسلم ممالک کویکجادیکھناچاہتاہے، مسلم ممالک کے تنازعات میں فریق نہ بننے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔منگل کو کمیٹی کا اجلاس چیئر مین اویس خان لغاری کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا،جس میں کمیٹی ارکان سم،سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ سمیت دفتر خارجہ کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی،کمیٹی نے سیکرٹری خارجہ کا عہدہ سنبھالنے پر تہمینہ جنجوعہ کو مبارک باد دی ،شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے ارکان کمیٹی نے اجلاس میں شرکت نہ کی ، رکن کمیٹی شیریں مزاری نے کہا کہ افغانستان سے تعلقات بہترنہیں ہیں اس پر ہمیں دفتر خارجہ ان کیمرہ بریفنگ دے،جس پر چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ جلد ہی دفتر خارجہ میں اس پر بریفنگ لیں گے یہ اہم معاملہ ہے،اسلامی اتحاد پر ایران کے تحفظات ہیں،علاقائی امن اور دو طرفہ تعلقات کی بہتری میں دونون ممالک کی پارلیمانی کمیٹیاں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں،اگلے ماہ خارجہ امور کمیٹی ایران کے دورے پر جائے گی،خارجہ امور کمیٹی افغانستان ایران سہ فریقی پارلیمانی مزاکرہ بھی کریگی،ایران اورافغانستان سے تعلقات پراراکین تحریری سفارشات بھی دیں، ہم انہیں ایرانی ماہرین سے شیئرکریں گے،رکن کمیٹی شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہمارے سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے ہوں گے،
شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اسلامی اتحاد کے بعد ہمیں احتیاط سے فیصلے لینے ہونگے،ایران سعودیہ میں کسی ایک طرف جھکاو اچھا نہیں ہوگا،دفتر خارجہ کے لیے بھی چیلنج ہے ہمارے لیے یہ حساس معاملہ ہے،شیریں مزاری نے کہا کہ اسلامی اتحاد کے حوالے سے دفتر خارجہ کے بیانات میں تضادات ہیں ۔چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی کو بتایا جائے کہ کیا راحیل شریف کو اسلامی اتحاد کی سربراہی کی اجازت دیدی گئی ہے،راحیل شریف کے اسلامی اتحادکی سربراہی سنبھالنے سے تعلقات کی نوعیت کیاہوگی، اسلامی اتحادپر ایران کے تحفظات ہیں، کیا پاکستان نے ایران کو اپنے اس فیصلے /موقف سے اگاہ کیا؟پاکستان سعودیہ ایران تعلقات میں توازن کیسے رکھے گا ؟ایران گیس پائپ لائن پر عملدرامد سے آگاہ کیا جائے،بتایا جائے کیا ایران نے افغانستان پر پاکستان سے تعاو ن کا عندیہ دیا ہے؟جس پرکمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ ایران سے تعلقات میں توازن ضروری ہے،ایرانی صدر2بارپاکستان آئے،دونوں ممالک میں باہمی تجارت318ملین ڈالرہے،دونوں ممالک میں آزادتجارت کامعاہدہ بھی ہوگا،
پاکستان ایران کیساتھ گیس پائپ لائن کامنصوبہ مکمل کرناچاہتا ہے،امریکی دباؤکے تحت گیس پائپ لائن پرکام نہیں روکا،مسئلہ عالمی پابندیاں ہیں ورنہ دونوں ممالک اسے آگے بڑھانے پرمتفق ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ پاکستان کا کوئی سرحدی تنازع نہیں ہے،پاک ایران سرحد کو محفوظ بنایا جا رہا ہے اور گپت اورمندہین کے مقامات پر2مزیدکراسنگ پوائنٹس کھول رہے ہیں،گوادراورچاہ بہارکی بندرگاہوں کاکوئی مقابلہ نہیں بلکہ سسٹرپورٹس ہیں،سیکر ٹری خارجہ نے کہا کہ سعودیہ ایران دونوں ممالک سےِ متوازن تعلقات پاکستان کے مفاد میں ہیں ،پاکستان بھی اومان کی طرح سعودیہ ایران تعلقات میں توازن برقرار رکھنا چاہتا ہے ،ایران اور سعودی عرب کے تعلقات مشکلات کا شکار ہیں ہم ایران سعودی عرب کشیدگی میں کمی کی کوششیں کر رہے ہیں۔سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ اسلامی فوجی اتحادکے حوالے سے وزیردفاع خواجہ محمد آصف کابیان آچکاہے،اسلامی اتحاد کے رکن ممالک کی تعداد 41 ہوگئی ہے،حالیہ شامل ہونے والا ملک اومان ہے،اتحاد میں شامل ہررکن ممالک نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں اپنی اپنی ذمہ داری لی، ہم بھی توازن قائم کرنیکی کوشش کررہے ہیں،پاکستان مسلم ممالک کویکجادیکھناچاہتاہے،
پاکستان کی پالیسی وہی ہے جو2015کی پارلیمنٹ کی قراردادمیں وضع کی گئی تھی، سعودی عرب،ایران،یمن کے بارے پالیسی میں کوئی بھی تبدیلی نہیں آئی،چاہتے ہیں کہ اسلامی ممالک دہشت گردی کیخلاف اکھٹے ہوں،انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم ممالک کے تنازعات میں فریق نہ بننے کی پالیسی پر کاربند ہے ،سعودیہ ایران کے ساتھ تعلقات میں برابری پاکستان کیلئے مشکل ہے ،اسلامی اتحاد نہ کسی ملک کے خلاف ہے نہ کسی ملک کیلئے ہے،پاکستان ایران کے مفادات کے خلاف نہیں جائے گا ،ہمارے ریٹائرڈ فوجی بھی ایران کے خلاف نہیں لڑیں گے۔سیکر ٹری خارجہ نے کہا کہ دہشتگردی پوری دنیاکیلئے بڑاچیلنج ہے،دہشتگردی کیلئے فنڈنگ نیشنل ایکشن پلان کے تحت روک رہے ہیں، وزارت خزانہ اوراسٹیٹ بینک کے تعاون سے اقدامات کیے جارہے ہیں،ہم نیشنل ایکشن پلان کوسامنے رکھ کرلائحہ عمل تیارکرتے ہیں اور ہم ہر قسم کی بیرونی فنڈنگ پر نظر رکھتے ہیں۔