اسلام آباد(آئی این پی )مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان کچھ بھی کر لے افغانستان الزام تراشیوں سے باز نہیں آئے گا ،افغانستان زمینی حقائق دیکھے گا تو امن کیلئے افغان طالبان سے مذاکرات کرے گا،نئی امریکی حکومت نے دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کیا ہے ،نئے سال میں بھارت کیساتھ مذاکرات کی بحالی چاہتے ہیں ،سی پیک میں بھارت سمیت کوئی بھی ملک شامل ہوسکتا ہے ،2017کے چیلنجز میں امر یکہ کیساتھ تعلقات بھی اہم معاملہ ہے مگرامر یکی ڈکٹیشن قبول کر نیکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،
فیصلے پاکستان کے مفاد کے مطابق ہی ہوں گے ‘ٹرمپ انتظامیہ طالبان نہیں داعش کو اپنے لیے بڑا خطر ہ سمجھتے ہیں ‘دہشت گردی کوبہانہ بنا کر بھارت مذاکرات سے بھاگتا ہے مگر بھارت کی شر ائط قبول ہیں اور نہ ہی مسئلہ کشمیر پر بات کے بغیر مذکرات ہوں گے ‘پاکستان کو خطے میں تنہا کر نے کی بھارتی کوشش اور سازشیں ناکام ہوئی ہیں ‘پاکستانی معیشت میں بہتری کے خارجہ پالیسی پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ۔وہ اتوار کو نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ 2016میں چین سے ہمارے تعلقات نے نئی منزلیں طے کی ہیں ، ایران پر معاشی پابندیاں ہٹنے کے بعد پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ گزشتہ سال میں پاکستان کی سب سے بڑی کامیابی انسداد دہشتگردی کے اقدامات تھے ، پاکستانی معیشت میں بہتری کے خارجہ پالیسی پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ۔انہوں نے کہا کہ 2013میں پاکستان نے عدم مداخلت کی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا اور مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پالیسی میں توازن رکھا ہے ، نامزد ماریکی وزیردفاع نے دہشتگردی کیلئے پاکستان کی قریبانیوں کو تسلیم کیا ۔مشیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان تمام شدت پسند گروپوں کے خلاف بلا امتیاز کاروائی پر کاربند ہے ،ا مریکہ سے ڈکٹیشن ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، حقانی نیٹ ورک کو ٹارگٹ کرنے کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی واضح ہے ۔انہوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ طالبان مخالف پالیسی سے زیادہ داعش مخالف پالیسی کو اہمیت دے گی ، ٹرمہ انتظامیہ طالبان کو اپنے لئے بڑا خطرہ نہیں سمجھتی ، آپریشن ضرب عضب کے بعد زیادہ تر شدت پسند گروپ پاکستان سے جا چکے ہیں ۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ شدت پسند گروپس ختم ہو بھی جائیں تو بھی افغانستان پاکستان پر الزام لگانا بند نہیں کرے گا ، پاکستان کے علاوہ خطے کے تمام ممالک نریندر مودی کے دباؤ میں آگئے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے مسئلے کو بہانہ بنا کر بھارت مذاکرات سے بھاگ گیا ،دونوں ملکوں کے تعلقات میں تنزلی کی وجہ بھارت ہے ، بھارت کا اپنی شرائط پر تعلقات بحال کرنا پاکستان کو منظور نہیں ہے ، پاک بھارت تنازعہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر حل نہیں ہوگا ۔مشیر خارجہ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف بھارت سے ہی آوازیں اٹھ رہی ہیں ،2017میں بھارت پر پاکستان سے مذاکرات کا دباؤ بڑھے گا ۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں میرا بھارت جانا ضروری تھا ، بھارت سارک کانفرنس ایک بار نہیں بلکہ 4بار ملتوی کراچکا ہے مگر اس کے باوجود ہمارا ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کرنا ضروری تھا کیونکہ یہ کانفرنس افغانستان امن پراسس کے حوالے سے تھی ہم شامل نہ ہوتے تو بھارت ہمارے خلاف اور زیادہ پراپیگنڈا کرتا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو خطے میں تنہا کرنے کی بھارتی کوشش ناکام ہوچکی ہے ، سی پیک منصوبے میں جو ملک شامل ہونا چاہیے وہ ہوسکتا ہے ، اشرف غنی کو توقع تھی کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر جلد لے آئے گا ۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ لڑنے پر مکمل اتفاق رائے نہیں ہے ۔