سندھ کے بعد پنجاب میں نیب کی کارروائی پر خوش نہیں ہوں گا، آصف زرداری

9  مارچ‬‮  2016

نیویارک (نیوز ڈیسک) سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان میں صدر کے عہدے کو ختم کر دینا چاہئے کیونکہ یہ عہدہ قومی خزانے پر ایک ناروا بوجھ ہے۔ نیویارک میں ’’جنگ گروپ‘‘ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب آئین میں طے ہو چکا ہے ملک پارلیمانی طرزِ حکومت پر چلے گا تو پھر ایوانِ صدر کے ڈیڑھ ہزار افراد کے عملے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ ساتھ ہی قہقہہ لگاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب ملک میں صدارتی نظام کی بات ہو رہی ہے اگر صدر کو زیادہ اختیارات دینے ہی تھے تو تب دئیے جاتے جب میں صدر تھا، پھر سنجیدگی سے کہا کہ لوگ صدارتی نظام کو سمجھے بغیر اس کی حمایت کر دیتے ہیں۔ صدارتی نظام کا مطلب ہو گا طاقتور صدر اور اس نظام میں پارلیمان کی کوئی وقعت نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اب ان بحثو ں کو چھوڑ کر پارلیمانی نظام ہی کو مضبوط کرنا ہو گا۔ایک سوال کے جواب میں سابق صدر نے کہا کہ اب نہ تو وہ صدر اور نہ ہی وزیراعظم کا عہدہ لیں گے۔ اگر پارٹی کو موقع ملا تو پھر بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم کے عہدے پر امیدوار ہوںگے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اگر کوئی رول ادا کرنا پڑا تو وہ زیادہ سے زیادہ رکن قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔ انہوںنے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مارشل لاء کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ان کے خیال میں معمول کے مطابق انتخابات ہونگے۔ ٹیک اوور کا کوئی چانس نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں خرابی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جب بھی کمانڈ میں تبدیلی آتی ہے پالیسیاں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں بطور صدر بھی کہتا رہاہوں کہ اس ملک کو پالیسیوں کے تسلسل کی ضرورت ہے۔جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے دئیے گئے بیان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مدتِ ملازمت میں توسیع حکومتِ وقت کا حق ہے۔اس فیصلے میں اپوزیشن کا کوئی کردار نہیں۔ حکومت جو چاہے فیصلہ کرے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر انہوں نے مدتِ ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کرنا ہوتا تو کیا کرتے تو انہوں نے کہا کہ’’ مجھے پپو نہ بنائو‘‘ ،سیاست میں مفروضوں پر بات نہیں ہوتی اور پھر کہا کہ ’’اپنے سوالوں سے پپو یار تنگ نہ کر والا حال نہ کرو‘‘۔ عزیر بلوچ کی گرفتاری اور اس کے ممکنہ اثرات کے حوالے سے سوال کے جواب پر سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہــ’’WHO IS SHE‘‘ اس سے پہلے بھی بڑے بڑے الزامات لگائے گئے لیکن کوئی بھی الزام ثابت نہ ہو سکا۔ کبھی مجھ پر مرتضیٰ بھٹو کے قتل تک کا الزام لگا دیا گیا، یہاں تک الزام لگا کہ ٹانگوں پر بم باندھ کر بینک لوٹنے کی کوشش کی لیکن ان تمام مقدمات کو میں نے جیتا۔انہوں نے کہا کہ پچھلے 27سالوں سے صرف آصف زرداری کا احتساب ہوا ہے۔سب کا احتساب ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کا احتساب ضروری ہے۔نیب کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ برا قانون ہے اور میں اس پر خوش نہیں ہوں گا کہ سندھ کے بعد نیب پنجاب میں بھی کارروائی کرے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ایک تھپڑ مجھے پڑے اورمیں اس کا جواب بھی تھپڑ ہی سے دوں۔ انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت میں بھی دونوں جماعتوں نے اتفاق کر رکھا ہے کہ نیب قانون کو بدلا جائے گا۔ جب ہماری حکومت آئی تو شروع میں نواز شریف نے اتفاق کیا کہ یہ قانون بدل دیا جائے، ہم نے نیب کی تنخواہیں بند کر دیں مگر بعد میں نوازشریف کا ارادہ بدل گیا اور یوں نیب برقرار رہا۔ انہوںنے بتایا کہ سندھ میں احتساب کا نیا قانون بن رہا ہے اور وہ وفاقی حکومت سے بھی نئے احتساب قوانین پر ڈائیلاگ کے لئے تیار ہیں۔چوہدری نثار علی خان سے خراب تعلقات کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خراب تعلقات کی تین بڑی وجوہات ہوتی ہیں۔ زن، زر اور زمین۔ان تینوں میں سے ہمارے درمیان کوئی وجہ نزاع نہیں ہے۔ نہ کوئی میرا پراجیکٹ ان کے پاس پھنسا ہوا ہے اور نہ ان کے علاقے میں میری کوئی زمین ہے۔ مجھے اختلاف کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی بس ان کی اپنی ایک سوچ ہے، اپنی طبیعت ہے۔اس سوال پر کہ سندھ حکومت کا مستقبل خطرے میں ہے، انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد نہ تو سندھ اسمبلی تحلیل کی جا سکتی ہے اور نہ گورنر راج لگ سکتا ہے البتہ عدم اعتماد کی تحریک لائی جا سکتی ہے جو کہ جمہوری طریقہ ہے۔ اپوز یشن کے پاس جب بھی طاقت ہو سو بسم اللہ۔ وہ تحریک عدم اعتماد لائیں۔ سابق صدر نے کہا کہ انہوںنے خود بلوچستان میں حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ کراچی کے حالات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امن و امان کی بہتری میں سندھ حکومت اور رینجرز دونوں کی مشترکہ کاوشیں شامل ہیں اور دونوں ہی کو کریڈٹ ملنا چاہئے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر آپریشن کے نتائج اتنے ہی اچھے ہیں تو انہوں نے اسے اپنے دور میں کیوں شروع نہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہماری مخلوط حکومت تھی، ہم ایسا قدم نہیں اٹھا سکتے تھے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ لیاری میں آپریشن ان کے دورِ صدارت میںشروع ہوا۔ عزیر بلوچ کے سر کی قیمت بھی سندھ حکومت نے رکھی۔ انہوںنے کہا کہ میں نے اپنے دورِ صدارت میں بھی طے کر لیا تھا کہ لیاری سے جرائم کو ختم کرنا ہے۔چاہے اس کی سیاسی قیمت کچھ بھی ہو چاہئے اس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی لیاری سے ہار ہی کیوںنہ جائے۔ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری اور ان کے خلاف ریفرنسز کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا یہ پریشر ہتھکنڈے ہیں۔ہم تو بچپن سے ہی ڈاکٹر عاصم کو پیار کے نام’’خرگوش‘‘ سے بلاتے ہیں۔ سندھی میںکہتے ہیں کہ ’’سہے دی کھل‘‘ یعنی شریف آدمی ہے سائے سے بھی ڈرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے اس کو مشورہ دیاتھا کہ ناظم آباد میں نہ رہو، ڈیفنس میں آجائو۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ ڈاکٹر عاصم کے پاس آپ کے راز ہیں اور انہیں آپ کے خفیہ اکائونٹس کا پتہ ہے تو سابق صدر نے کہا کہ یہ جدید زمانہ ہے، آج تو صرف ایک بٹن دبانے سے سارے اکائونٹس کا پتہ چل جاتا ہے۔ اس کے لئے ڈاکٹر عاصم کی کیا ضرورت ہے۔ جب بھی کسی تفتیش میں میرے اکائونٹس کی تفصیل پوچھی جائے گی تو سب کچھ بتا دیا جائے گا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے تو اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان دیا تھا تو انہوں نے کہا کہ میرے بیان کی غلط تشریح کی گئی ہے۔ حالانکہ اس بیان سے مطلب انتہا پسند ی اور دائیں بازو کی سوچ سے لڑائی تھی۔ اس کا مطلب فوج یا اسٹیبلشمنٹ نہیں تھی کیونکہ عراق، شام اور لیبیا کے حالا ت کے بعد پاکستان کسی اندرونی لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اس سوال پر کہ وہ پاکستان میں ڈر کی وجہ سے واپس نہیں آ رہے انہوں نے کہا کہ میری 27سالہ سیاسی زندگی کا ہر دوسرا دن جیل میں گزرا ہے۔ مجھے جیل سے خوف نہیں ہمارے دور میں ملک بھر میں ایک بھی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ ہم نے اپنے مخالفوں کو بھی جیل میں نہیں ڈالا۔ انہوں نے کہا ایک وزیر صاحب خود تو جیل جانے سے ڈرتے رہے مگر انہیں باقی لوگوں کو جیل میں ڈالنے کا بہت شوق ہے۔انہوں نے اپنے پاکستان واپس نہ آنے کی وجہ بیماری کو بتایا اور کہا مجھے ایک دن میں 27ٹیکے بھی لگے اب کہیں جا کر درد ٹھیک ہونے لگے ہیں۔ جونہی میں ٹھیک ہوا پاکستان واپس آ جائوں گا۔

موضوعات:



کالم



زندگی کا کھویا ہوا سرا


ڈاکٹر ہرمن بورہیو کے انتقال کے بعد ان کا سامان…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…