اسلام آباد(نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ اٹھارہویں اور اکیسویں ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت جمعرات کو بھی جاری رکھے گی ۔ حامد خان اپنے دلائل مکمل کریں گے ۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے بنیادی فیچر کون سے ہیں اگر بنیادی آئین کا ڈھانچہ موجود ہے تو اس میں کیسے ترمیم کی جاسکتی ہے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ کہنا غلط ہوگا کہ آئین کے محافظ صرف ہم ہیں اصل محافظ وہ ہیں جن کو عوام منتخب کرکے پارلیمان میں لاتی ہے نمائندے عوام کی منشاءکے مطابق ترمیم کریں تو وہ دوبارہ منتخب ہوسکتے ہیں ۔جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آئین میں ترمیم سے پہلے عوام کی رائے جاننا ضروری ہے آئین میں ترمیم کا اختیار پارلیمنٹ نے ایک ترمیم کے ذریعے حاصل کیا کیا آئین کے بنیادی ڈھانچے میں ترمیم کسی مینڈیٹ کے بغیر کی جاسکتی ہے ۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ پچھلے دو دنوں سے ٹی وی چینلز پر آئین پر ہونے والی بحث سے بہت لطف اندوز ہورہا ہوں ایسے لوگ بحث کررہے ہیں جن کو آئین سے سرے سے پتہ ہی نہیں ہے ۔جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت آئین کی محافظ ہے کثرت رائے سے ہونے والے فیصلے کو ہم کس طرح رد کرسکتے ہیں ۔ انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دیئے ہیں ۔ سانگھڑ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17رکنی فل کورٹ بینچ کے روبرو ججوں کی تقرری میں پارلیمانی کمیٹی کے کردار کو موزوں بحث بناتے ہوئے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں ترمیم نہیںکی جاسکتی بھارتی آئین کا انحصار بھی اسی ڈھانچے پر ہے پارلیمانی کمیٹی کا ججز کے تقرر میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے اگر اس طرح کردار دیئے جاتے رہے تو کل وہ اپنے فیصلوں میں بھی کردار مانگیں گے تو اس وقت عدلیہ کیا کرے گی ۔ اس پر جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کبھی کسی نے پارلیمنٹ کے ترمیم کے کردار کو چیلنج نہیں کیا آج یہ چیلنج کیا گیا ہے تو اس کو کس طرح سے اس کا فیصلہ کرینگے حامد خان نے کہا کہ عدالت کو دیکھنا ہوگا کہ اب تک کی ہونے والی ترامیم کیا کسی بنیادی آئینی ڈھانچے سے متصادم تو نہیں کیونکہ اگر بنیاد نہیں ہوگی تو عمارت بھی کھڑی نہیں رہ سکتی ۔