گیٹ کی دوسری طرف سناٹا تھا‘ فلائیٹ کا وقت ہو چکا تھا‘ ائیرپورٹ پہنچنا ضروری تھا لیکن میں ساڑھے تیرہ سو سال کا سفر کر کے وہاں پہنچا تھا‘ میں اس عاشق رسول کو سلام کئے بغیر کیسے واپس جاسکتا تھا جس کے سامنے میدان بدر میں سگا والد آیا تو اس نے اللہ اکبر کا نعرہ لگاکر اپنے کافر والد کے دو حصے کر دیئے‘ حضرت عمر فاروقؓ جسے ملنے کےلئے شام پہنچے تو گھر میں چار پائی‘ پیالہ‘ پیوند زدہ لباس اور ایک تلواردیکھ کر پوچھا ”اے ابن جراح بس یہ ہے تمہارا اثاثہ“ جواب دیا ”ہاں امیر المومنین میرے لئے یہ بھی زیادہ ہے“اور جب شام میں طاعون پھیلا اورحضرت عمر فاروقؓ کو اپنے عظیم سپہ سالار کی فکر لاحق ہو گئی
تو آپؓ نے خط لکھا” مجھے مدینہ میں تمہاری اشد ضرورت ہے‘ تم فوراً پہنچو“ جواب دیا ”امیر المومنین حکم سر آنکھوں پر لیکن میں اپنے سپاہیوں کو موت کی وادی میں چھوڑ کر کیسے واپس آ سکتا ہوں؟“ حضرت عمر فاروقؓ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ وہ بعد ازاں طاعون میں مبتلا ہوئے اور اردن کے مقام جیبیہ(Jabiya) پر انتقال فرما گئے‘ وہ عظیم انسان تھے‘ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ایک دن بعد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے‘
حبشہ ہجرت کرنے والے مسلمانوں میں شامل ہوئے‘ تمام غزوات میں شریک ہوئے‘ شام‘ لبنان‘ بیت المقدس‘ شمالی عراق‘ ترکی اور آرمینیا فتح کیا‘ قرآن مجید میں بھی ان کے جذبے کی تعریف ہوئی اور پوری زندگی جرا¿ت اور فاقہ مستی ان کا اثاثہ رہی‘ میں اس عاشق رسول کے مرقد کی زیارت کے بغیر قرشی شہر سے کیسے نکل سکتا تھا؟ میں گیٹ کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا‘ میری آنکھوں میں آنسو تھے اور ہونٹ کپکپا رہے تھے‘ شہر میں ٹھنڈ اور اندھیرے کا راج تھا‘ فلائیٹ کا وقت ہو چکا تھا اور میرے میزبان دروازے کا کنڈا بجا رہے تھے‘ میں نے قدموں کی چاپ سنی‘ کوئی گیٹ کی طرف دوڑ رہا تھا‘قدم دروازے کے پاس رکے‘ کنڈا کھلا اور مہیب گیٹ کھل گیا‘ مزار کا متولی سامنے تھا‘ میزبان نے ازبک زبان میں میرا تعارف کرایا اور مرقد مبارک کی زیارت کی درخواست کی‘ متولی نے سینے پر ہاتھ رکھا اور ہمارے آگے آگے چل پڑا‘ وہ ایکڑوں پر محیط وسیع کمپاﺅنڈ تھا‘ مرکزی گیٹ کے اندر راہ داری تھی‘ راہ داری کے دونوں طرف درخت اور کیاریاں
تھیں‘ راہ داری کے درمیان سے پتھروں کی سیڑھیاں نیچے اترتی تھیں‘ سیڑھیوں کے آخر میں ایک اورکمپاﺅنڈ تھا‘کمپاﺅنڈ میں پانی کا تالاب اور تالاب سے آگے روضہ مبارک کی عظیم عمارت تھی‘ متولی نے دروازہ کھولا اور ہم اندر داخل ہو گئے‘ سامنے سفید سنگ مر مر کی قبر تھی‘ گنبد اونچا اور پچی کاری کا شاندار نمونہ تھا‘ دیواریں سیدھی اور سفید تھیں‘ ماحول میں تقدس اور سفید روشنی تھی‘ متولی نے تلاوت شروع کردی‘ آیات گنبد سے ٹکراتی تھیں‘ دیواروں سے لپٹتی تھیں اور پھر بارش کی طرح قبر پر نچھاور ہو جاتی تھیں‘ میری آنکھوں میں آنسو تھے اور ہاتھ کپکپا رہے تھے۔
یہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کا مزار شریف تھا‘ آپ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے‘ 28 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا اور 56 سال کی عمر میں جیبیہ(Jabiya) کے مقام پر انتقال فرمایا‘ مزار اردن کے شہربلقاءمیں بنا لیکن میں 3 دسمبر 2016ءکو ازبکستان کے شہر قرشی میں ان کے مزار شریف پر موجود تھا‘ یہ کیا اسرار تھا‘ وہ دفن اردن میں ہوئے اور مزار ازبکستان میں بنا‘ کیسے؟ یہ کہانی بھی کم دلچسپ نہیں لیکن میں اس کہانی سے قبل آپ کو قرشی شہر کے بارے میں بتاتا چلوں۔قرشی ازبکستان کا2700 سال پرانا شہر ہے‘ سکندر اعظم ہو یا چنگیر خان دنیا کے تمام بڑے فاتحین نے اس شہر میں قدم ضرور رکھے‘ امیر تیمور قرشی سے سو کلو میٹر کے فاصلے پر شہر سبز کے مضافات میں پیدا ہواتھا وہ پوری زندگی شہر سبز کو سنوارتا اور تعمیر کرتا رہا‘ وہ جو ملک اور جو شہر فتح کرتا تھا‘ اس کے تمام ہنر مندوں‘ علماءاور دانشوروں کو شہر سبز بھجوا
دیتا تھا‘ اس کی خواہش تھی وہ اپنے شہر کو ایسا شہر بنائے جو سبزے‘ خوبصورتی‘ سہولتوں اور علم و دانش میں اپنی مثال آپ ہو ‘ قرشی اس دلآویز شہر کا دروازہ تھا‘ آپ شہر سبز سے نکلنا چاہتے ہوں یا داخل ہونا چاہتے ہوں آپ کو قرشی سے گزرنا پڑتا تھا‘ قرشی امیر تیمور کی اولین فتوحات میں بھی شامل تھا‘تیمور نے شہر سبز میں اپنا مقبرہ اور قبر بھی تیار کرائی لیکن اسے اپنے اس یکتا شہر میں دفن ہونا نصیب نہیں ہوا‘ کیوں؟ یہ میں آپ سے اگلے کالم میں عرض کروں گا‘ سرِ دست ہم اپنی توجہ قرشی پر مبذول رکھتے ہیں‘ قرشی کشکا دریا کے کنارے آباد ہے‘یہ علاقہ دریا کی مناسبت سے کشکا دریا ریجن کہلاتا ہے‘قرشی اس ریجن کا دارالخلافہ ہے‘ قرشی کے گردونواح میں بے شمار عربی قبائل آباد ہیں‘ یہ لوگ اسلام کے ابتدائی دور میں عرب سے نقل مکانی کر کے قرشی میں آباد ہوئے ‘ یہ آج بھی قدیم عربی زبان بولتے ہیں اور عرب روایات کے
مطابق زندگی گزارتے ہیں‘ ہم پاکستانی قرشی دواخانہ اور قرشی کے جام شیریں کے ساتھ پل کر جوان ہوئے ہیں‘ یہ دواخانہ قرشی فیملی کی ملکیت ہے‘ یہ لوگ قرشی سے ہندوستان منتقل ہوئے تھے‘ مجھے نہیں معلوم آفتاب قرشی اور ان کے بہن بھائی کبھی اپنی بنیاد کی تلاش میں قرشی گئے یا نہیں لیکن یہ شہر آج بھی ان کی راہ تک رہا ہے‘میں نے قرشی شہر میں جس شخص کو بھی قرشی دواخانے کے بارے میں بتایا‘اس کی آنکھوں میں حیرت کا سرمہ پھیل گیا‘ امیر تیمور کی عادت تھی وہ جب بھی کسی مہم پر نکلتا تھا ‘وہ قرشی میں ضرور رکتا تھا‘ اس نے قرشی میں دریا کشکا پر شاندار پل بھی بنوایا اور ایک چھوٹی فوجی چھاﺅنی بھی ‘ یہ پل آج تک قائم ہے لیکن چھاﺅنی وقت برد ہو چکی ہے‘ تیمور 1400ءکے شروع میں شام فتح کرنے نکلا‘ یہ مارتا دھاڑتا ہوا دمشق پہنچا‘ ابن خلدون اس وقت دمشق میں تھا‘ اہل شہر نے ابن خلدون کو پیغام بر بنایا اور ٹوکرے میں بٹھا کر شہر کی فصیل سے نیچے اتار دیا‘ ابن خلدون امیر تیمور کے پاس پہنچا‘ ہاتھ کو بوسا دیا اور جھک کر عرض کیا ”یا امیر میں نے دنیا میں آپ سے بڑا فاتح نہیں دیکھا“ امیر تیمور ابن خلدون سے اپنی تعریف سن کر خوش ہو گیا اور اس نے اسے ملازمت کی پیش کش کر دی‘ ابن خلدون نے اہل دمشق پر لعنت بھیجی
اور باقی زندگی امیر تیمور کے ساتھ بسر کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ وہ دن رات تیمور کی شجاعت اور علم کی تعریف کرتا رہتا تھا‘تیمور نے اپنی آٹو بائیو گرافی میں بار بار اس تعریف کا ذکر کیا‘ وہ ابن خلدون کی تعریف کو اپنے لئے اعزاز سمجھتا تھا‘ تیمور حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کا عقیدت مند تھا‘ وہ ان کے مزار پر حاضر ہونا چاہتا تھا‘ابن خلدون اسے مزار پر لے گیا لیکن اس وقت مزار کی حالت بہت خراب تھی‘ چھتیں اور دیواریں ڈھے چکی تھیں اور قبر شکستگی کے عمل سے گزر رہی تھی‘ تیمور کو عالم اسلام کے عظیم سپہ سالار کے مزار نے غمزدہ کر دیا‘ اس نے تلاوت کی‘ فاتحہ پڑھی‘ قبر کی مٹی اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کی کچھ باقیات جمع کیں‘ انہیں شاندار تابوت میں ڈالا اور عقیدت کے ساتھ قرشی لے آیا‘ اس نے قرشی میں حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کی دوسری قبر بنوائی اور اس پر شاندار مقبرہ تعمیر کرادیا یوں دنیا میںابن الجراحؓ کے دو مزارات ہیں‘ پہلا مزار اردن کے شہر بلقاءمیں ہے اور دوسرا ازبکستان کے شہر قرشی میں‘ قرشی انیسویں صدی میں روس کے قبضے میں چلا گیا‘ روسیوں نے ازبکستان کے دیگر مزارات کی طرح یہ مزار بھی گرا دیا‘ قبر کا نشان بھی مٹا دیا گیا‘ روسی 115 سال ازبکستان پر قابض رہے‘ یہ جگہ اس دوران جنگل بن گئی ‘
روضہ مبارک کو درختوں‘ جھاڑ جھنکار اور قد آدم گھاس نے ڈھانپ لیا لیکن آپ اہل قرشی کی عقیدت ملاحظہ کیجئے‘ یہ نماز‘ روزہ اور کلمہ بھول گئے لیکن انہیں حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کی قبر یاد رہی‘ ایک نسل دوسری نسل اور دوسری نسل تیسری نسل کو مزار کی نشاندہی کرتی رہی یہاں تک کہ ازبکستان نے 1991ءمیں آزادی حاصل کر لی‘ آزادی ملتے ہی قرشی کے لوگ یہاں پہنچے‘ جنگل صاف کیا‘ قبر تلاش کی اور زیارت کا سلسلہ شر وع ہو گیا‘ ازبک صدر اسلام کریموف نے یہاں امیر تیمور سے زیادہ شاندار مزار بنوا دیا۔میں 3 دسمبر کی رات اس عظیم سپہ سالار کی قبر کی پائنتی میں بیٹھا تھا ‘ حضرت عمر ؓ نے انہیں لکھا تھا ”تم یہ پیغام رات کو پڑھو تو پو پھٹنے سے قبل میری طرف روانہ ہو جاﺅ اور یہ پیغام اگر تمہیں دن کے وقت ملے تو تم سورج ڈوبنے سے پہلے روانہ ہو جاﺅ‘ مجھے مدینے میں تمہاری فوری ضرورت ہے“ لیکن اسلام کے سپاہی نے اپنے سپاہیوں کو طاعون میں چھوڑ کر جانے سے انکار کر دیا‘ حضرت عمرؓ انہیں اپنے بعد خلیفہ نامزد کرنا چاہتے تھے لیکن وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اردن میں خاموشی سے انتقال فرما گئے‘ یہ ہوتا ہے کریکٹر!
میں قبر کے ساتھ بیٹھا تھا‘ متولی تلاوت کر رہا تھا اور آیات بارش بن کر قبر پر برس رہی تھیں ‘ باہر قرشی میں گھپ اندھیرا اور سردی تھی۔