’’آپ نے زیارت کا نام سنا ہوگا؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا‘ اس نے ہاں میں سر ہلایا اور جواب دیا ’’جی ہاں‘‘ میں نے پوچھا ’’زیارت کیا ہے؟‘‘اس نے جواب دیا ’’ یہ قائداعظم کی رہائش گاہ کا نام ہے‘‘ میں نے بھی ہاں میں سر ہلایا اور عرض کیا ’’آپ بڑی حد تک درست ہیں‘ قائداعظم نے اپنی زندگی کے آخری 65 دن زیارت شہر کے ایک گھر میں گزارے تھے‘‘ میں رکا اور پھر پوچھا ’’زیارت ہے کیا‘‘ اس نے سوچ کر جواب دیا ’’یہ شاید کوئی شہر‘ کوئی گاؤں ہے‘‘ میں نے ہاں میں سر ہلایا اور عرض کیا ’’جی ہاں‘ یہ بلوچستان کا ایک دور دراز شہر ہے‘‘ میں نے اس کے بعد اس سے پوچھا ’’قائداعظم زیارت میں کہاں مقیم رہے تھے‘‘ نوجوان نے چند لمحے سوچا اور پھرانکار میں سر ہلا دیا‘ میں نے عرض کیا ’’زیارت میں ایک سرکاری عمارت تھی‘ یہ گورنر جنرل کے ایجنٹ کی گرمائی رہائش گاہ تھی‘ ایجنٹ گرمیوں میں کوئٹہ سے یہاں شفٹ ہو جاتا تھا‘یہ عمارت 1892ء میں انگریز نے بنوائی‘ زیارت میں صنوبر کے گھنے جنگل ہیں‘ صنوبر کی ہوا ٹی بی کے مریضوں کیلئے اچھی ہوتی ہے چنانچہ انگریز نے زیارت میں سینی ٹوریم بنوا دیا‘ یہ عمارت شروع میں سینی ٹوریم تھی‘ پھر یہ بلوچستان کے انگریز افسروں کی گرمائی رہائش گاہ بن گئی اوراس مناسبت سے ریذیڈنسی کہلائی‘ پاکستان بننے کے بعد یہ بلوچستان کیلئے گورنر جنرل کے ایجنٹ کی ریذیڈنسی ہو گئی‘قائداعظم محمد علی جناح ٹی بی کے آخری سٹیج کے مریض تھے چنانچہ انہیں ڈاکٹروں کی ہدایت پر7جولائی1948ء میں کوئٹہ منتقل کیا گیا اور پھر یہ اسی روز زیارت شفٹ ہو گئے‘قائداعظم 7 جولائی سے 10 ستمبر1948ء تک 65 دن اسی عمارت میں مقیم رہے‘ قائداعظم کو11 ستمبر1948ء کو کراچی لے جایا گیا‘ وہ کراچی پہنچتے ہی انتقال کر گئے‘‘ میں خاموش ہوگیا۔
ہمارے درمیان دیر تک خاموشی رہی‘ نوجوان نے بے چینی سے کروٹ بدلی اور بولا ’’جناب آپ کی بات سر آنکھوں پر لیکن زیارت ریذیڈنسی کا میرے سوال کے ساتھ جوڑ نہیں بنتا‘‘ میں نے مسکرا کر جواب دیا ’’بہت گہرا تعلق ہے‘ زیارت سینکڑوں سال پرانا قصبہ ہے‘ یہ ریذیڈنسی 1892ء میں بنی اور اس میں سینکڑوں جنرل‘نواب ‘سیاستدان اور بیورو کریٹ مقیم رہے لیکن اس ریذیڈنسی کے 50 سال اور زیارت شہر کی سینکڑوں سال کی تاریخ ایک طرف اور قائداعظم محمد علی جناح کے 65 دن ایک طرف‘ قائداعظم نے اس عمارت اور اس شہر کو صرف 65 دن عنایت کئے اور اس کے بعد یہ عمارت اور یہ شہر دونوں انمول ہو گئے‘ یہ دونوں دنیا بھر میں مشہور ہو گئے‘ قائداعظم کی تشریف آوری سے قبل بلوچستان کے نوے فیصد لوگ بھی زیارت شہر سے واقف نہیں تھے لیکن قائداعظم کے نام سے جڑنے کے بعد یہ شہر بھی تاریخ کا حصہ بن گیا اور یہ عمارت بھی۔ قائداعظم کی چند دن کی رہائش نے اس پچاس سال پرانی عمارت کو عجائب گھر کا درجہ دے دیا‘قوم نے اس کے بعد اس عمارت کو گرنے دیا‘ بکنے دیا اور نہ ہی کسی دوسرے شخص کو اس میں رہائش پذیر ہونے دیا‘ یہ عمارت جون 2013ء میں دہشت گردی کا نشانہ بنی‘ یہ خبر پوری دنیا میں پھیلے پاکستانیوں پر بجلی بن کر گری اور یہ تڑپ اٹھے‘ ریاست بھی تلملا اٹھی‘ قوم نے 10 ماہ میں یہ عمارت نہ صرف دوبارہ کھڑی کر دی بلکہ وزیراعظم نے زیارت جا کر خود اس کا افتتاح بھی کیا‘ میں کل ٹی وی پردیکھ رہا تھا‘ بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری زیارت ریذیڈنسی کے سامنے کھڑے ہو کر قائداعظم کی سالگرہ منا رہے ہیں‘‘ میں رکا اور پھر عرض کیا ’’ یہ کیا ثابت کرتا ہے‘‘ وہ خاموش رہا‘ میں نے عرض کیا ’’آپ کراچی کی مثال بھی لے لو‘ قائداعظم نے 1943ء میں فلیگ سٹاف ہاؤس خریدا‘ یہ گھر یہودی آرکی ٹیکٹ نے 1890ء میں بنایا تھا‘ یہ انگریز جرنیلوں کی سرکاری رہائش گاہ ہوتا تھا‘ یہ پھر ایک امیر پارسی خاندان نے خریدلیا‘ قائداعظم نے یہ 1943ء میں پارسی بزنس ٹائیکون سہراب کاوس جی سے خرید لیا‘ آپ 1944ء میں یہاں شفٹ ہوئے لیکن کبھی جم کر اس گھر میں نہ رہ سکے‘ آپ یہاں آتے تھے‘ ایک آدھ دن رکتے تھے اور آگے نکل جاتے تھے‘ آپ لاہور میں چند دن فلیٹیز ہوٹل میں بھی رہائش پذیر ہوئے‘ ممبئی میں آپ نے 1936ء میں اپنا گھر بنوایا‘یہ گھر مالا بار ہل پرماؤنٹ پلیزنٹ روڈ پر واقع تھا‘ قائداعظم اس گھر میں بمشکل آٹھ دس سال رہے‘ دہلی میں 10۔ اورنگزیب روڈ قائداعظم کی رہائش گاہ تھی‘ قائداعظم نے اس عمارت میں بھی صرف چند ماہ گزارے مگر آپ چند برسوں کے اس مختصر قیام کا نتیجہ دیکھئے‘ دہلی اور ممبئی کی یہ دونوں عمارتیں آج بھی جناح ہاؤس کہلاتی ہیں‘‘ میں پھر خاموش ہو گیا۔
وہ حیرانی سے میری طرف دیکھتا رہا‘ میں اس بار اس کے بولنے سے پہلے بول پڑا‘ میں نے عرض کیا ’’میرے عزیز زیارت کے اردگرد اس جیسے درجنوں قصبے اور شہر موجود ہیں لیکن ان کے نام آج بھی لوگ نہیں جانتے‘ زیارت کو کس کی زیارت گاہ کی وجہ سے زیارت کہا جاتا ہے‘ لوگ یہ بھی نہیں جانتے‘ انگریزوں نے اس علاقے میں ریذیڈنسی کے علاوہ بھی درجنوں عمارتیں‘ہاؤس اور ریسٹ ہاؤس بنائے تھے‘ وہ عمارتیں گریں‘ تباہ ہوئیں اور ختم ہوگئیں‘ فلیگ سٹاف ہاؤس کے اردگرد بھی درجنوں پرانی عمارتیں تھیں‘ قائداعظم کے زمانے میں کراچی میں بھی سینکڑوں امیر خاندان ہوتے تھے‘ اورنگزیب روڈ دہلی اور ماؤنٹ پلیزنٹ روڈ ممبئی میں قائداعظم کے گھرکے دائیں بائیں اس دور کے درجنوں امراء‘ رؤساء اور کامیاب لوگ رہتے تھے اورلاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں بھی اب تک ہزاروں امیراور کامیاب لوگ راتیں گزارچکے ہیں لیکن وہ لوگ کون تھے؟ وہ کہاں سے آئے اور کہاں چلے گئے؟ قائداعظم کے گھر کے دائیں بائیں موجود محلات بھی درجنوں مرتبہ بکے‘ ان میں درجنوں خاندان مقیم ہوئے اور یہ بعد ازاں وہاں سے روتے دھوتے رخصت ہوگئے‘ قائداعظم کے دور میں ہندوستان میں 564 ریاستیں تھیں‘ ان تمام ریاستوں کے والی بھی تھے‘ نواب بھی اور مہاراجے بھی اور ان تمام مہاراجوں اور نوابوں کے محلات بھی تھے اور قلعے بھی۔ قائداعظم کے زمانے میں ممبئی‘ دہلی‘ کراچی‘لاہوراور بلوچستان میں بھی ایسے سینکڑوں خاندان موجود تھے جو دولت اور زمین جائیداد میں محمد علی جناح سے ہزار درجے بہتر تھے‘ 1980ء کی دہائی میں ماضی اور حال کے 75 امیر ترین لوگوں کی فہرست بنی تھی‘ اس فہرست میں فرعون 13ویں نمبر پر تھا جبکہ نظام آف دکن پانچویں نمبر پرتھا‘ نظام کے پاس اس قدر دولت تھی کہ پاکستان کے ابتدائی مہینوں میں پورے ملک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نظام دیتا تھا‘ قائداعظم جس گاڑی میں گورنر جنرل کا حلف لینے گئے تھے‘ وہ نواب آف بہاولپور کی ملکیت تھی‘ قائداعظم کو جب زیارت سے کراچی شفٹ کیا جا رہا تھا تو انہیں نواب آف بہاولپور کے محل میں ٹھہرانے کا بندوبست کیا گیا تھا‘ پنجاب کے ٹوانے‘ نون‘ ممدوٹ اور دولتانے اس قدر بڑے جاگیردار تھے کہ ان کی زمینوں کے درمیان ریلوے کے تین تین ‘چارچار سٹیشن آتے تھے‘ سندھ کے جتوئی‘ مخدوم اور رند بھی ایشیا کے بڑے جاگیردار کہلاتے تھے اور کراچی میں بھی ایسے ایسے رئیس موجود تھے جن کی شپنگ کمپنیاں یورپ کی بڑی بڑی کمپنیوں کو شرما دیتی تھیں لیکن پھریہ لوگ کہاں گئے؟ ان کی دولت‘ ان کے محلات‘ ان کی کمپنیاں اور ان کی جاگیریں کہاں چلی گئیں؟‘‘ میں رکا‘ سانس لی اور نوجوان سے عرض کیا ’’یہ لوگ‘ ان کے خاندان‘ ان کی جاگیریں‘ ان کے محل‘ ان کے ویلے اور ان کا مال و دولت 68 سال میں ختم ہوگیا‘ گھر بک گئے‘ محل گر گئے اور کوٹھیوں کی جگہ پلازے بن گئے‘ جائیدادیں تقسیم در تقسیم ہو گئیں‘ طوائفوں کی دہلیزوں پر نچھاور ہو گئیں‘ جواء خانوں میں خرچ ہو گئیں اور شرابوں اور شبابوں کی نذر ہو گئیں‘ فیکٹریوں کو مندہ نگل گیا یا پھر سالے اور بہنوئی کھا گئے‘ محل آثار قدیمہ کے ہتھے چڑھ گئے یا پھر قرقی کا شکار ہو گئے‘ ہاتھی‘ گھوڑے اور چیتے مر گئے اور تلواریں‘ نیزے اور ڈھالیں لوہاروں نے پگھلا دیں یا پھر عجائب گھروں میں سج گئیں اور بات ختم جبکہ اس کے مقابلے میں ہمارے قائد نے جس گھرمیں 65 دن گزارے وہ ریذیڈنسی ہوگیا اور آپ نے جس مکان میں چند سال قیام فرما لیا وہ جناح ہاؤس بن گیا اور قوم نے اس کی ایک ایک اینٹ کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھا لی‘ ریاست نے پھر اسے گرنے دیا‘ ٹوٹنے دیا اور نہ ہی بکنے دیا اور اگر کبھی کوئی بدبخت قائداعظم کی اس رہائش گاہ کو جلانے کی جسارت کر بیٹھا جس کی 123 سال کی تاریخ میں قائداعظم کے ساتھ صرف 65 دن کی نسبت تھی تو قوم نے 10 ماہ میں اس عمارت کو ٹھیک اسی جگہ‘ اسی نقشے کے ساتھ دوبارہ کھڑا کر دیا‘ یہ کیاہے؟‘‘میں نے لمبی سانس لی اور خاموش ہو گیا‘ وہ تھوڑی دیر تک میری طرف دیکھتا رہا اور پھر بولا’’ہاں یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’یہ نسبت ہے‘ یہ نسبت اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو نصیب کرتا ہے جو اپنا سب کچھ دوسروں پر قربان کر دیتے ہیں‘ قائداعظم نے کروڑوں لوگوں کو گھر دینے کیلئے اپنے تین مکان قربان کئے‘ قوم نے اس کے جواب میں کسی ایسے کمرے کی دیوار بھی میلی نہیں ہونے دی جس میں قائداعظم نے چند دن قیام فرما لیا تھا‘ قائداعظم نے کروڑوں خاندانوں کی بقا کیلئے اپنے خاندان کی قربانی دی‘قوم نے اس کے جواب میں اپنے ہر خاندان کو قائد کا خاندان ڈکلیئر کر دیا‘ قائداعظم نے قوم کے بچوں اور بچیوں کیلئے اپنی اکلوتی بیٹی کی قربانی دی‘ قوم نے اس کے جواب میں اپنی تمام بیٹیوں کو قائد کی بیٹیاں قرار دے دیا‘ قائداعظم نے قوم کی آزادی کیلئے مال و دولت کو ٹھوکر ماری‘ قوم نے اس کے جواب میں اپنے ہر نوٹ پرقائداعظم کی تصویر چھاپ دی‘ قائداعظم قوم کیلئے اپنے بزرگوں کی قبریں ممبئی میں چھوڑ آئے‘ قوم نے اس کے جواب میں قائداعظم کی قبر کو زیارت گاہ بنا دیا اور قائداعظم نے قوم کی آزادی کیلئے دن رات ایک کر دیئے‘ قوم نے اس کے جواب میں اپنے تمام دن رات قائداعظم کے نام وقف کر دیئے جبکہ قائد کے مقابلے وہ تمام لوگ جو اپنی زمینوں‘ جائیدادوں‘ محلوں اور کاروبار کے محافظ بنے رہے‘ وہ سب دنیا سے بے نام چلے گئے‘ لوگ آج ان کے نام سے واقف ہیں اور نہ ہی ان کے محلوں کے مقام سے‘ وہ چلے گئے اوران کے ساتھ ہی ان کے نام لیوا بھی رخصت ہو گئے اور تم پوچھ رہے ہو‘ قائداعظم کو کیا ملا‘ ان کو کیا حاصل ہوا؟میرے بچے قائداعظم ایک نسبت بن گئے‘ ایک ایسی نسبت جس نے اگر پتھرکو بھی چھو لیا تو وہ پتھر اس کے بعد پتھر نہیں رہا‘زیارت گاہ بن گیا‘‘۔
نوجوان مسکرایا‘ ہاتھ ملایا اورباہر نکل گیا۔
نسبت
26
دسمبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں