گیٹ پر تالا تھا، میں پریشان ہو گیا، منگل کا دن تھا، سرکاری چھٹی بھی نہیں تھی، گیٹ کے ساتھ میوزیم کا بورڈ بھی تھا لیکن گیٹ بند تھا، گیٹ کے بعد لان تھا، لان کے ساتھ برگد کے بوڑھے درخت تھے اور ان درختوں اور اس لان کے ساتھ وہ پرشکوہ عمارت تھی جسے قائداعظم محمد علی جناح نے 1944ء میں اپنی رہائش کے لیے منتخب کیا، یہ اس وقت کراچی کی شاندار عمارتوں میں شمار ہوتی تھی، یہ عمارت1865ء میں تعمیر ہوئی۔
موسس سوماکی نے ڈیزائن کیا، یہ بعد ازاں فلیگ اسٹاف ہاؤس بنی اور سندھ کے جنرل کمانڈنگ آفیسر کی سرکاری رہائش گاہ قرار پائی، فلیگ اسٹاف ہاؤس میں جنرل ڈگلس گریسی جیسے لوگ رہائش پذیر ہوئے، یہ گھر 1940ء میں پارسی تاجر سہراب کاؤس جی نے خرید لیا، قائداعظم کو قیام پاکستان کے آثار نظر آئے تو آپ نے 1944ء میں یہ عمارت سہراب کاؤس جی سے ایک لاکھ 5ہزار روپے میں خرید لی، دہلی سے قائداعظم کی رہائشگاہ کا سامان یہاں شفٹ ہوا اور یہ عمارت قائداعظم کے نام منسوب ہو گئی، قائداعظم کے انتقال کے بعد یہ عمارت محترمہ فاطمہ جناح کا گھر بن گئی، فاطمہ جناح 9 جولائی 1967ء تک یہاں مقیم رہیں۔
ان کا انتقال اسی گھر کی بالائی منزل پر ہوا، جنازہ بھی یہیں سے اٹھا، یہ گھر 1984ء میں قائداعظم اور فاطمہ جناح کی یادوں کا عجائب گھر بنا دیا گیا، میں منگل کے دن کراچی میں قائداعظم میوزیم پہنچا لیکن گیٹ پر تالا دیکھ کر پریشان ہو گیا، مجھے رینجرز کا ایک جوان دور کھڑا دکھائی دیا، وہ دور سے چلایا ’’میوزیم بند ہے،، میں نے چلا کر پوچھا ’’کیوں؟،، اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، وہ مجھے ہاتھ کے اشارے سے آگے جانے کی ہدایت کرنے لگا مگر میں ڈھیٹ بن گیا، وہ غصے کے عالم میں گیٹ پر آیا، مجھے پہچانا اور اس کا رویہ تبدیل ہو گیا۔
اس نے گیٹ کھول دیا، میں نے گیٹ پر تالے کی وجہ پوچھی، اس کا جواب تھا ’’ سیکیورٹی ریزن، ویسے بھی یہاں کون آتا ہے‘‘ میرے دکھ میں اضافہ ہو گیا، میں نے پورچ میں عمارت کی تصویر لینی چاہی تو رینجر نے روک دیا، میری حیرت میں مزید اضافہ ہو گیا، میں نے وجہ پوچھی، جواب ملا ’’میوزیم میں فوٹو کھینچنا منع ہے‘‘ میری ہنسی نکل گئی، میں نے اس سے کہا ’’بھائی صاحب انسان اگر میوزیم میں تصویر نہیں بنائے گا تو کہاں بنائے گا‘‘ وہ بیچارہ خاموش ہو گیا، یہ میری زندگی کا پہلا میوزیم تھا جس میں تصویر کشی سے روک دیا گیا، آپ دنیا بھر کے عجائب گھروں میں تصویریں بناتے ہیں۔
یہ تصویریں آپ کا اثاثہ ہوتی ہیں لیکن یہ پاکستان ہے جہاں میوزیمز میں تالے بھی ہوتے ہیں اور تصویر کشی بھی جرم ہوتی ہے، سامنے برآمدہ تھا، برآمدے سے گزر کر عمارت کے پیچھے گیا، عمارت کے پیچھے سرونٹ کوارٹرز اور عمارت کے منیجر کا دفتر ہوتا تھا، یہ حصہ آج کل میوزیم کے ملازمین کے زیر استعمال ہے، میوزیم میں داخلہ بیک سائیڈ سے ہوتا ہے، میں وہاں پہنچا تو یہاں بھی دروازے پر تالا لگا تھا، میں نے دائیں بائیں دیکھا، ایک صاحب دور برآمدے میں بیٹھے تھے۔
میں نے ہاتھ سے انھیں اشارہ کیا اور چلا کر پوچھا ’’ یہ تالا کون کھولے گا‘‘ اس نے بھی چلا کر جواب دیا ’’چوکیدار نماز پڑھنے گیا ہے‘‘ میں برآمدے میں نیچے بیٹھ گیا اور اپنے آپ سے پوچھا ’’اگر ہمارے قائد زندہ ہوتے تو کیا کوئی سرکاری ملازم سرکاری عمارت کو تالا لگا کر چابی جیب میں ڈالکر نماز پڑھنے چلا جاتا؟‘‘ جواب خاموشی کے سوا کچھ نہ تھا۔
عمارت کے کیئر ٹیکر رشید صاحب بھلے آدمی ہیں، یہ 35 برس سے یہاں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ان کے لہجے میں درد بھی تھا اور یاس بھی۔ وہ نماز پڑھ کر میرے پاس آئے اور قائداعظم کی رہائش گاہ کا دروازہ کھول دیا، قائد کی خوشبو کا جھونکا دوڑ کر باہر نکلا، میں نے دہلیز کے اندر قدم رکھ دیے، اندر کی دنیا عجیب تھی، آپ نے اگر یہ دیکھنا ہو ہمارے قائد کس قدر نفیس اور اعلیٰ ذوق کے حامل تھے تو آپ کو ایک بار! صرف ایک بار ان کی رہائشگاہ کی زیارت اور ان کے زیر استعمال سامان کو دیکھنا چاہیے۔
آپ ان کے حسن ذوق کے عاشق ہو جائینگے، دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی برتنوں کی الماری تھی، یہ برتن قائد کے زیر استعمال رہے، برتنوں میں جاپان اور چین کی طرف سے تحفے میں دیا گیا چینی کا ٹی سیٹ بھی تھا، چائے کے دو کپ اسی طرح رکھے تھے جس طرح 65 سال پہلے رکھے جاتے تھے، یہ زہر کی نشاندہی کرنے والے کپ تھے۔
کپ میں اگر زہریلا مادہ ڈال دیا جاتا تو یہ کپ فوراً ٹوٹ جاتے، برتنوں کی الماری سے دائیں جانب قائد کی اسٹڈی تھی، اسٹڈی میں امریکی ٹیلی فون سیٹ بھی تھا اور قائد کی اسٹڈی ٹیبل، کرسی، ہاتھ دھونے والا پیالہ، آپ کے جرمن شیفرڈ کا پیتل کا مجسمہ، کتابوں کا ریک، کتابوں کی الماری، الماری میں کتابیں اور صوفہ سیٹ بھی تھا، سینٹرل ٹیبل پر شیشے کے نیچے قائد اعظم کے وزٹنگ کارڈز بھی رکھے تھے، ڈائننگ ہال میں بھی برتنوں کی الماری تھی اور الماری پر ہاتھ دھونے والا بڑا پیالہ رکھا تھا، دیوار پر قائداعظم اور فاطمہ جناح کی تصویر لگی تھی، یہ تصویر اسٹڈی کے صوفے پر لی گئی تھی۔
وہ صوفہ آج بھی اسی پوزیشن میں پڑا ہے، ڈائننگ ہال میں بارہ افراد کے لیے ڈائننگ ٹیبل تھی، یہ ٹیبل ممبئی کے کسی رئیس نے قائد کو گفٹ کی، ڈائننگ ہال میں شیشے کے دو شو کیس بھی تھے، یہ دونوں قیمتی لکڑی سے بنے تھے، ایک شو کیس میں برتن تھے جب کہ دوسرے پر ڈرائی فروٹ کی ٹرے پڑی تھی، کارنس پر لیمپ رکھا تھا اور دیوار پر قائد اعظم کا وہ مشہور پورٹریٹ تھا جس میں آپ نے آنکھ پر ایک شیشے کی عینک لگا رکھی تھی، ڈائننگ ہال کے ساتھ لکڑی کی سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں، آپ سیڑھیوں کے سامنے کھڑے ہوں تو آپ کو سیڑھیوں کے نیچے گلابی رنگ کے تین صوفے اور کوٹ لٹکانے والا ہینگر نظر آئے گا۔
یہ جگہ قائد کے دور میں ویٹنگ روم تھی ۔ سیڑھیوں پر قائد اعظم کی تین تصویریں ہیں، وہ ایک تصویر میں فاطمہ جناح اور اپنی صاحبزادی دینا واڈیا کے ساتھ کھڑے ہیں، کیئر ٹیکر رشید صاحب نے بتایا ’’قائد کی صاحبزادی دینا واڈیا2004ء میں جنرل مشرف کے دور میں کراچی تشریف لائیں، وہ سیڑھیوں پر اس تصویر کے سامنے رک گئیں اور دیر تک روتی رہیں‘‘ یہ تصویر دیکھ کر میری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے، قائد اعظم کی دوسری تصویر جوانی کی تھی جب کہ وہ تیسری تصویر میں محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے تھے، آپ جب بالائی منزل پر پہنچتے ہیں تو بائیں جانب محترمہ فاطمہ جناح کا بیڈ روم آتا ہے۔
یہ اسی حالت میں ہے جس میں محترمہ نے اسے آخری صبح چھوڑا تھا، محترمہ کے سلیپر تک بیڈ روم کے ساتھ پڑے ہیں، بیڈ کی پائنتی پر دو کرسیاں اور درمیان میں گول میز ہے، میز پر دھات کا پیالہ رکھا ہے، کمرے میں لکڑی کے شو کیس اور ریک بھی ہیں جب کہ ڈریسنگ ٹیبل پر لالٹین کی وہ تصویر پڑی ہے جو ایوب خان کے خلاف الیکشن کے دوران محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان تھی، کوریڈور کی دیوار پر وہ تصویر بھی لگی ہے جس میں مسلم لیگی رہنماؤں نے محترمہ کو ایوب خان کے خلاف الیکشن کے لیے تیار کیا تھا، فاطمہ جناح کے کمرے کے ساتھ ان کا ڈریسنگ روم اور واش روم ہے، یہ دونوں بھی اصلی شکل میں موجود ہیں۔
آپ کوریڈور میں دائیں جانب جائیں تو پہلے ایک سٹنگ روم آئے گا، جہاں ایک چھوٹی ڈائننگ ٹیبل اور دو کرسیاں رکھی ہیں، کمرے کے دونوں کونوں میں کارنس ہیں اور کارنس پر دھات کے گل دان رکھے ہیں، کارنس کے درمیان دروازہ ہے، یہ دروازہ قائد اعظم کے بیڈ روم اورا سٹنگ روم میں کھلتا ہے، اسٹنگ روم میں قائد کے صوفے، ایزی چیئر، چھڑیاں، شمعدان، کتابوں کی الماری، شوکیس ، کاغذات کی الماریاں اور ڈریسنگ ٹیبل ہے، الماری میں ہاتھی دانت کی بنی خوبصورت چھڑی بھی موجود ہے، ساتھ ہی قائد اعظم کا بیڈ روم اور باتھ روم ہے، قائد اعظم کا بیڈ سنگل ہے، بیڈ کی ایک سائیڈ ٹیبل پر آپ کی بیگم رتی بائی کی فریم شدہ تصویر رکھی ہے، دوسری سائیڈ ٹیبل پر سیاہ رنگ کا ٹیلی فون سیٹ دھرا ہے۔
اس کے ساتھ فرشی ٹیبل لیمپ ہے، دیوار کے ساتھ دوسرا چھوٹا ٹیبل ہے جس پر جگ اور گلاس رکھا ہے، ایک ایزی چیئر بھی ہے، سنگل صوفہ پڑا ہے، صوفے کے سامنے میز پر قرآن مجید کا نسخہ رکھا ہے، قرآن مجید کی جلد چاندی کی ہے، ایک کونے میں کتابوں کی الماری ہے اور اس کے ساتھ کاغذات کا باکس ہے، یہ باکس کا فور سے بنایا گیا تھا، آپ باکس کھولیں تو آپ کو کافور کی خوشبو بھی آتی ہے، بیڈ روم کے ساتھ قائد کا باتھ روم ہے، باتھ روم انتہائی ماڈرن تھا۔
اس میں سفید باتھ ٹب بھی تھا، سفید واش بیسن بھی اور سفید امپورٹڈ کموڈ بھی، باتھ روم کے ساتھ قائد اعظم کے کپڑوں کی الماری ہے، رشید صاحب نے خصوصی مہربانی فرمائی اور الماری کھول دی، الماری میں قائد اعظم کے کپڑے لٹکے ہوئے ہیں، یہ کپڑے دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے، میں اندر سے دکھی ہو گیا، باتھ روم کے کونے میں گندے کپڑوں کی ٹوکری بھی رکھی ہے اور باہر ریک پر قائد اعظم کے دو جوتے بھی پڑے ہیں، یہ دونوں جوتے ہینڈ میڈ اور قیمتی ہیں۔
میں قائد اعظم کی رہائش گاہ کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا، میں نے کیئر ٹیکر سے پوچھا ’’کیا لوگ قائد اعظم کے گھر کی زیارت کے لیے آتے ہیں‘‘ وہ دکھی آواز میں بولا ’’سال چھ مہینے میں کوئی ایک آدھ بندہ آ جاتا ہے اور بس‘‘ میرے آنسو دوبارہ رواں ہو گئے، میں روح تک قائد اعظم سے شرمندہ ہو گیا، قائد اعظم کے پاکستان میں اٹھارہ کروڑ لوگ رہتے ہیں، یہ اٹھارہ کروڑ لوگ اس ملک کے ’’بینی فشری‘‘ ہیں، ایم کیو ایم ملک کے بانیان کی جماعت کہلاتی ہے، مسلم لیگ قائد اعظم کی جماعت ہے۔
جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی سیاسی جماعتیں قائد اعظم کو رحمت اللہ علیہ کہتی ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی چالیس سال سے روح پاکستان کے دعوے کر رہی ہے لیکن اس ملک میں قائد اعظم کا کوئی نہیں، ان کے گھر پر تالے پڑے ہیں اور کمرے بے چراغ ہیں، افسوس قائد اعظم سب کے ہیں لیکن میاں نواز شریف، عمران خان، آصف علی زرداری اور الطاف حسین سے لے کر ممنوں حسین تک قائد اعظم کا کوئی نہیں، یہ لوگ اس شخص کے گھر کا دروازہ تک نہیں کھولتے جس کے صدقے یہ آج حکمران ہیں، محسن کشوں کے اس ملک میں قائد کا گھر بے چراغ بھی ہے اور ویران بھی۔