توبہ ‘ توبہ

4  جولائی  2014

پروفیسر انوار الحق پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز ) کے شعبہ پیتھالوجی کے سربراہ تھے‘ وہ ملک کے چند بڑے پیتھالوجسٹ میں شمار ہوتے ہیں‘پروفیسر صاحب کی زندگی بڑے سکون اور اطمینان سے گزر رہی تھی لیکن چند روز پہلے انہوں نے اچانک صدر جنرل پرویز مشرف کے مقابلے میں صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا‘ پروفیسر صاحب کے اس اعلان نے شروع میں ’’ پمز‘‘ میں تھرتھلی مچا دی

اور اس کے بعد وزارت صحت کا پتہ پانی ہوگیا چنانچہ وفاقی سیکرٹری صحت اور پمز کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے پروفیسرسے تردیدکا مطالبہ کردیا ‘ پروفیسر صاحب نے وجہ پوچھی تو انہیں بتایا گیا ’’ آپ سرکاری ملازم ہیں اور آئین کی رو سے کوئی سرکاری ملازم الیکشن نہیں لڑ سکتا‘‘ پروفیسر صاحب نے مسکرا کر جواب دیا ’’ صدر پرویز مشرف بھی سرکاری ملازم ہیں‘ اگر وہ سرکاری ملازمت کے دوران الیکشن لڑ سکتے ہیں تومیں کیوں نہیں ‘‘ وزارت صحت ان کے جواب سے مطمئن نہیں ہوئی لہٰذا پروفیسر صاحب کو ’’ پمز ‘‘سے ہٹا دیا گیا اور بعد ازاں ان کی خدمات وزارت کے حوالے کردی گئیں‘ پروفیسر صاحب کا فرمانا ہے ’’ یہ اہم نہیں میں الیکشن لڑتا ہوں یا نہیں اہم بات یہ ہے اس ملک کیلئے ضابطے اور اصول طے ہونے چاہئیں‘ اگر کوئی سرکاری ملازم الیکشن نہیں لڑ سکتا تو یہ اصول تمام سرکاری ملازموں پر لاگو ہونا چاہیے‘ یہ بڑی زیادتی ہے پروفیسر انوار الحق تو فوراً اس اصول کی زد میں آجاتا ہے لیکن جنرل پرویز مشرف سے کوئی نہیں پوچھتا‘‘ پروفیسر صاحب نے فرمایا ’’ میں پاکستان کا آزاد شہری ہوں اور آزاد شہری ہونے کی حیثیت سے میں ہر فورم پر اپنا کیس لڑوں گا‘‘ مجھے یہ معلوم نہیں پروفیسر انوار الحق اپنے حق صدارت کیلئے کہاں تک جاتے ہیں اور ان کی جدوجہد کا کیا نتیجہ نکلتا ہے لیکن جہاں تک پروفیسر صاحب کی جسارت اور استدلال کی بات ہے تو میں اس معاملے میں ان سے پوری طرح متفق نہیں ہوں‘

جنرل پرویز مشرف اور پروفیسر انوار الحق کے محکمے‘ سٹیٹس اور لباس میں بڑا فرق ہے اور جب تک یہ فرق موجود ہے اس وقت تک پروفیسر صاحب کو صدارتی الیکشن کی اجازت نہیں دی جاسکتی‘مثلاً آپ جنرل پرویز مشرف کے پیچھے موجود ادارے کو دیکھئے‘ یہ پاکستان کا سب سے بڑا‘منظم‘ مضبوط اور توانا ادارہ ہے جبکہ پروفیسر صاحب پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر اور پیتھالوجسٹ ہیں اور اگر وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کی کوشش کریں توشاید ان کے دفتر کا چپڑاسی ‘ ڈرائیور اور مالی تک ان کا ساتھ نہ دے‘

پاکستان میں جرنیل اور پروفیسر کے سٹیٹس میں بھی بڑا فرق ہے گو دونوں 22 ویں گریڈ کے سرکاری ملازم ہوتے ہیں لیکن ایک جرنیل کے پاس دو تہائی اکثریت کی حامل حکومت کو گھر بھجوانے کے اختیارات ہوتے ہیں‘ وہ تمام اسمبلیاں لپیٹ سکتے ہیں اور وہ بارہ بارہ سال تک اقتدار سے چمٹے رہ سکتے ہیں جبکہ پروفیسر انوار الحق جیسے سرکاری ملازم زیادہ سے زیادہ کسی کو ٹیکہ لگا سکتے ہیں ‘اسے نیلی پیلی گولیاں دے سکتے ہیںیا کسی کی فائل روک سکتے ہیں‘

جنرل پرویز مشرف اور پروفیسر انوار الحق کے لباس میں بھی بڑا فرق ہے‘ جنرل پرویز مشرف یونیفارم زیب تن کرتے ہیں اور جب تک ان کی یونیفارم قائم رہتی ہے محترمہ بے نظیر بھٹو سے نواز شریف تک اور یورپی یونین سے امریکہ تک دنیا کی کوئی طاقت ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی‘ ہمارے جرنیلوں کو ہر دور میں اپنی یونیفارم کی صفائی‘ ستھرائی اور دھلائی کیلئے مسلم لیگیں بھی مل جاتی ہیں اور یہ مسلم لیگیں ان کی یونیفارم کی حفاظت کیلئے جان تک لڑا دیتی ہیں جبکہ پروفیسر انوار الحق کے بدن پر صرف ایک سفید کوٹ ہے اور وہ اس سفید کوٹ سے زیادہ سے زیادہ مریضوں کو ڈرا سکتے ہیں

لہٰذا جنرل مشرف اور انوار الحق سرکاری ملازم ہونے کے باوجود دو الگ الگ دنیاؤں کے باسی ہیں اور یہ حقیقت ہے جہاں پروفیسر انوارالحق کے سرکاری اختیارات ختم ہوتے ہیں وہاں سے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے پاؤں شروع ہوتے ہیں چنانچہ جنرل صاحب کی ہم سری کی خواہش دیوانگی کے سوا کچھ نہیں‘ میرا خیال ہے وزارت صحت کو پروفیسر انوار الحق کے میڈیکل ٹیسٹ کرانے چاہئیں اور انہیں آپریشن تھیٹر پر لٹا کر ان کے جسم سے فوری طور پر وہ فالتو حصہ نکال دینا چاہیے جو انہیں حقوق کا احساس دلاتا ہے یا جو ان کے ضمیر کو آکسیجن پہنچا رہا ہے۔

میرا خیال ہے پروفیسر انوار الحق شدید فکری اور ذہنی مغالطے کا شکار ہیں وہ جنرل صاحب کے اختیارات سے واقف نہیں ہیں‘وہ یہ تک نہیں جانتے جنرل صاحب کے پاس 12 اکتوبر جیسے بے شمار اختیارات موجود ہیں جبکہ پروفیسر صاحب کا اپنی بیگم پر بھی کوئی اختیار نہیں چلتا ہوگا ‘ جنرل صاحب نے ق لیگ جیسی شاندار سیاسی جماعت تشکیل فرما دی تھی اور یہ سیاسی جماعت آج تک ان کے جھنڈے تلے متحد ہے جبکہ پروفیسر انوار الحق صاحب دس ہم خیال مریض جمع نہیں کر سکتے اور اگر یہ کر بھی لیں تو یہ انہیں پانچ برس تک ایک ہی قسم کا سیرپ اور گولیاں نہیں کھلا سکتے‘

چنانچہ پروفیسر صاحب دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا وہ وزیراعظم شوکت عزیز جیسی شخصیت کا بندوبست کر سکتے ہیں اور کیا ان کی خواہش پر چودھری پرویز الٰہی جیسے بہادر انسان پنجاب اسمبلی میں کھڑے ہو کر یہ اعلان کریں گے ہم پروفیسر انوار الحق کو دس بار وردی میں صدر منتخب کریں گے اور کیا پروفیسر صاحب کے عندیے پر مولانا فضل الرحمن جیسی سیاسی‘ مذہبی اور روحانی شخصیت یہ اعلان کرسکتی ہے صدر انوار الحق سسٹم کی بقا کیلئے ضروری ہیں‘میرا خیال ہے پروفیسر صاحب واقف نہیں جنرل پرویز مشرف عنقریب پارلیمنٹ سے ایک نئی آئینی ترمیم پاس کرانے والے ہیں‘

اس ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ اعلان کردے گی جنرل پرویز مشرف کا صدارتی انتخاب سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا‘ یہ ترمیم دو تہائی اکثریت سے پاس ہوگی اور پیپلز پارٹی سے لے کر ایم ایم اے تک جنرل صاحب کی حمایت میں ووٹ دے گی جبکہ پروفیسر انوار الحق پورے پاکستان سے ایک رکن اسمبلی تک کی حمایت حاصل نہیں کر سکتے‘ پروفیسر صاحب کو معلوم نہیں جنرل پرویز مشرف کسی بھی وقت ملک میں ایمرجنسی اور مارشل لاء لگا سکتے ہیں جبکہ پروفیسر انوار الحق کی ایمرجنسی صرف ہسپتالوں تک محدود ہوتی ہے اور اس میں بھی وہ زیادہ سے زیادہ کسی مریض کا خون یا پیشاب ٹیسٹ کرسکتے ہیں‘

پروفیسر صاحب کو شاید معلوم نہیں جنرل پرویز مشرف وانا سے لے کر لال مسجد تک بڑے بڑے فیصلے کر سکتے ہیں جبکہ پروفیسر انوار الحق ان بڑے بڑے فیصلوں کا شکار بننے والوں کی صرف مرہم پٹی کرسکتے ہیں اور جنرل پرویز مشرف لال مسجد آپریشن کے بعد بڑے دھڑلے سے بیان دے سکتے ہیں ’’ لوگ بکواس کر رہے ہیں لال مسجد میں صرف 191 لوگ مارے گئے تھے جبکہ پروفیسر انوار الحق اپنے ہاتھوں سے مرنے والے کسی ایک مریض کی ہلاکت کا اعتراف نہیں کر سکتے‘

لہٰذا پروفیسر انوار الحق اور جنرل صاحب کی سرکاری ملازمت میں زمین آسمان کا فرق ہے اورپروفیسر صاحب کو اپنے حقوق کی بات کرنے سے پہلے سو سو بار سوچنا چاہیے تھا۔ میں پروفیسر انوار الحق سے مکمل بغض رکھنے کے باوجود ان کی ایک بات سے متفق ہوں‘ پروفسر صاحب نے اپنے بیان میں فرمایا ’’ اس ملک کیلئے ضابطے اور اصول طے ہونے چاہئیں‘‘ میرا خیال ہے سپریم کورٹ کو پروفیسر انوار الحق کی جسارت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قانون اور آئین کیلئے کچھ نئے ضابطے اور اصول طے کر دینے چاہئیں مثلاً سپریم کورٹ کو سرکاری ملازموں کو دو کیٹگری میں تقسیم کر دینا چاہیے‘

باوردی سرکاری ملازم اور بے وردی سرکاری ملازم‘ سپریم کورٹ کوطے کر دینا چاہیے اگر کوئی باوردی سرکاری ملازم ایک خاص حد کو چھو لے تو اس کیلئے پاکستان کا قانون اور آئین بے اثر ہو جائے گا اور وہ جب چاہے اور جو چاہے کر گزرے اور ملک کی کوئی طاقت اس کے راستے میں حائل نہیں ہوگی ‘ سپریم کورٹ فیصلہ دے دے مستقبل میں تمام آرمی چیفس کو ایک خودکار نظام کے تحت صدارت دے دی جائے گی اور جب تک ان کی یونیفارم سلامت رہے گی اس وقت تک انہیں حکومت کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہو گا‘

سپریم کورٹ فیصلہ دے دے باوردی سرکاری ملازم ملازمت کے ساتھ ساتھ الیکشن بھی لڑ سکتے ہیں اور سول محکموں کی سربراہی بھی فرما سکیں گے جبکہ ان کے مقابلے میں بے وردی سرکاری ملازم صرف اور صرف سرکاری ملازمت تک محدود رہیں گے اور ان پر ملک کے تمام قواعد‘ ضابطے ‘ اصول اورقانون لاگو ہوں گے‘ سپریم کورٹ فیصلہ دے دے جس سرکاری ملازم کے پاس ایمرجنسی اور مارشل لاء لگانے کے اختیارات نہیں ہیں وہ الیکشن لڑنے اور صدر بننے کا اہل نہیں اور اگرکسی نے اس کی جسارت کی تو اس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی‘ یہ فیصلہ پروفیسر انوار الحق جیسے لوگوں کا راستہ روکنے کیلئے انتہائی ضروری ہے‘ خدا کی پناہ ذات کا ڈاکٹر اور صدارت کے خواب‘ توبہ ‘ توبہ‘ استغفار‘ توبہ ۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…