واشنگٹن(آئی این پی ) امریکہ کے سابق پالیسی ساز اور میڈیا کی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ پاکستان کے نو منتخب وزیراعظم عمران خان کی عام انتخابات2018 میں فتح تبدیلی کی نوید ہے ، اس کے ساتھ ساتھ یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ پاک امریکہ سیکیورٹی تعلقات میں بہتری کے لئے کیا اقدامات کرتے ہیں ،اس سلسلے میں وہ کامیاب ہو پاتے ہیں یاپھر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی فضاء برقرار رہتی ہے ، یہ ان کے لئے ان کے لئے بڑا چیلنج ہے ،
پاکستان نہ صرف ایک ایٹمی قوت ہے بلکہ افغان جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بھی ہے ۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کا اہم اتحادی ہونے کے باعث پاکستان میں 60 ہزار سے زائد بے گناہ پاکستانیوں کی شہادت ہو چکی ہے ۔ معروف امریکی اخباردی ہل کی رپورٹ میں امریکی محکمہ خارجہ کی پالیسی سازی اور منصوبہ بندی کے سابق ڈائریکٹر مچل بی ری ایس نے پاکستان میں تحریک انصاف کی عام انتخابات میں فتح اور پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے اپنے مضمون میں لکھاہے کہ خطے کو پر امن بنانا ٹرمپ انتظامیہ کے لئے بھی بہت بڑا چیلنج ہو گا ۔ القاعدہ اور انتہا پسند تنظیمیں پاکستان اور افغانستان دونوں کے لئے خطرہ ہیں اس لئے دونوں ممالک کو شدت پسند تنظیموں کے خاتمے کے لئے نئے سرے سے کام کرنا ہو گا ۔ دوسری جانب پاکستان کی شدید خواہش ہے کہ امریکہ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لئے کردار ادا کرے جب کہ امریکہ براہ راست کردار ادا کرنے کی بجائے دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر سمیت دیگر دو طرفہ مسائل کے حل پر زور دیتا آیا ہے ۔ امریکہ ڈاکٹر قدیر خان خان کی جانب سے مبینہ طور پر ایٹمی مواد کی دیگر ممالک میں منتقلی پر بھی تحفظات کا ا ظہار کر چکا ہے اس صورتحال میں امریکی کانگریس کی مدد سے پاکستان کو لڑاکا طیاروں اور تعاون کی مدد میں فوجی سازو سامان کی ترسیل ممکن ہوئی ۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اسی تناظر میں پاکستانی سیکیورٹی افسران پرانٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اور ٹریننگ کورس میں شرکت کرنے پر قدغن عائد کی ۔
جس باعث دو طرفہ تعلقات میں تناؤ آیا ، پاکستانی حکومت امریکہ یہ باور کراتی آئی ہے کہ نائن الیون کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں القاعدہ کی 95 فیصد قیادت پاکستانی کوششوں سے ہلاک ہوئی ۔ پاکستان امریکہ سے یہ شکایت بھی کرتا ہے کہ افغانستان میں قیام امن نہ ہونے کے باعث پاکستان کو اپنے روایتی حریف بھارت کے ساتھ مشرقی بارڈر کے ساتھ ساتھ افغانستان کے ساتھ مغربی بارڈر پر بھی دشواریوں کا سامنا ہے ۔اس ساری
سیکیورٹی صورتحال کے علاوہ پاکستان کے نئے وزیراعظم عمران خان کو ملک کی ابتر معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کا چیلنج بھی درپیش ہو گا چونکہ وہ اپنے انتخابی منشور کو قابل عمل بنانا چاہتے ہیں تاکہ جمہوریت کو فروغ حاصل ہو ۔ پاکستان کے امریکہ میں نئے مقرر کیے جانے والے سفیر علی جہانگیر صدیقی نئی نسل کے ترجمان کے طور پر دیکھے جانے میں اپنی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لئے بھرپور محنت درکار ہو گی ۔ لہذا ٹرمپ انتظامیہ کو کسی طور پر بھی پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے ۔