نیویارک (آئی این پی ) اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریز نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ فلسطینی ریاست کی تشکیل پر عالمی کثرتِ رائے کے معاملے پر دراڑیں پڑچکی ہیں، غزا کی انسانی ضرورتیں اور معاشی صورت حال بدتر ہوچکی ہے،عین ممکن ہے کہ 2020 تک فلسطینی پٹی رہنے کے قابل نہ رہے،اسرائیلی بستیوں کی تعمیر امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے جسے
روکنا اور تبدیل کرنا ضروری ہے۔ عوام کے ناقابل تبدیل حقوق کے معاملے پر تشکیل دی گئی اقوام متحدہ کی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریز نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ فلسطینی ریاست کی تشکیل کے معاملے پر لگتا ہے کہ عالمی کثرتِ رائے کے معاملے پر دراڑیں پڑچکی ہیں؛ ایسے میں جب غزا کی انسانی ضرورتیں اور معاشی صورت حال بدتر ہوچکی ہے اور عین ممکن ہے کہ 2020 تک فلسطینی پٹی رہنے کے قابل نہ رہے۔ انہوں نے مشرقی یروشلم سمیت، اسرائیل کی جانب سے بستیوں کی تعمیر اور مقبوضہ مغربی کنارے میں توسیع پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی رو سے یہ غیرقانونی طرز عمل ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے جسے روکنا اور تبدیل کرنا ضروری ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ تشدد کی کارروائیوں اور اشتعال انگیزی کے نتیجے میں خوف اور بداعتمادی کی فضا پیدا ہو رہی ہے۔سکریٹری جنرل نے اپنے مقف کا اعادہ کیا کہ اسرائیل اور بالآخر فلسطینی ریاست دونوں ہی یروشلم کو اپنا دارالحکومت کہیں گے۔ تاہم، انھوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جس میں سال 2019 کے آخر تک اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔دریں اثنا، گ انہوں نے کہا کہ غزا کی حالت
ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے۔بقول ان کہ محتاج کر دینے والی بندشیں اور مستقل ہنگامی صورت حال کے نتیجے میں غزا کا علاقہ بے بس ہوچکا ہے۔ مسمار ہوتا ہوا زیریں ڈھانچہ، بجلی کا بحران، بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی، مستقل بے روزگاری اور معیشت کی بدحالی کے نتیجے میں 20 لاکھ فلسطینیوں کی آبادی آئے دِن مشکلات کی شکار ہے۔ یہ سب کچھ ایسے وقت ہو رہا ہے جب پہلے ہی ماحولیاتی بحران نمودار ہو چکا ہے۔