بیجنگ (آئی این پی)امریکہ کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ دہشت گردوں کیخلاف جنگ جیتنے کیلئے نظریہ کلیت کے مطابق پاکستان اوردوسرے سٹاک ہولڈرز کے ساتھ تعاون کرے۔ ممتاز چینی جریدہ ’’گلوبل ٹائمز‘‘ میں تحقیق پر مبنی شائع شدہ ایک مضمون کے مطابق پاکستان کی سرزنش کرنے سے مسئلہ کے حل میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ پاکستان کی امداد معطل کرنے کے امریکی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے
کہا گیا ہے کہ ضروری نہیں دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ پاکستان کے تعاون کے بغیر کامیاب ہو لیکن اس کے بغیر یہ جیتی نہیں جا سکتی ہے ۔ وائٹ ہائوس کے پاکستان کی سیکیورٹی امداد منجمد کرنے کے اقدام نے اس کی خود غرضی اور ہٹ دھرمی کو پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان کے قومی مفادات اور سلامتی کو یقینی نہیں بنایا جائے گا تو علاقے میں کبھی امن و استحکام نہیں آئے گا لیکن اگر ٹرمپ کا اصل مقصد بحران کو زندہ رکھ کر علاقے میں امریکی فوجی امداد کو برقرار رکھنا ہے تو وہ غالباً اپنی اس نئی پالیسی کے ساتھ ایسا کر سکے گا۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ پاکستان 2001ء میں امریکہ کے افغان جنگ شروع کرنے سے قبل مقابلتاً محفوظ اور مستحکم ملک تھا۔ اس کے بعد پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے زبردست دبائو میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ سے تعاون کرنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان کی امداد والے افغان طالبان کیخلاف کارروائی کی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ نہ تو طالبان اور نہ ہی القاعدہ نے پاکستان کے مفاد کو زک پہنچائی ہے لہذا طالبان حکومت کا تختہ الٹنا خالصتاً امریکی مفاد برآری کا اقدام تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور یہ رقم 33 بلین امریکی ڈالر سے کہیں زیادہ ہے۔ درحقیقت پاکستان کو نام نہاد امریکی سیکیورٹی امداد ادا کی جانی چاہیے تھی۔ امریکی فوج نے پاکستانی فضائی مستقر استعمال کئے ۔
امریکی فضائیہ نے پاکستان کی فضائی حدود پر قبضہ کیا ‘ امریکی زمینی ٹرانسپورٹ گاڑیاں اس کے علاقے سے گزاری گئیں جس نے پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا۔250 ملین ڈالر کی معطل شدہ امداد سے شاہرات کی مرمت فیس اور روڈ محصول کی رقم کو بھی پورا نہیں کیا جا سکتا۔ مزید برآں پاکستانی فوجیوں کی شمولیت نے امریکی جانی نقصان کو کافی حد تک کم کر دیا۔ بات یہ نہیں ہے کہ پاکستان دہشتگردی
کے خلاف جنگ میں پوری طرح ملوث نہیں تھا بلکہ دہشت گرد بھی بہت بڑی رکاوٹ نہیں ۔ گزشتہ 16 برسوں میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی آڑ میں امریکہ نے نیٹو اتحاد کی فوج میں ہزاروں کی تعداد میں اضافہ کیا۔ طاقتور ہتھیار بھجوائے اور کئی ٹریلین ڈالر خرچ کئے تاہم اس کے باوجود وہ افغانستان میں انتہاء پسند گروپوں اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے میں ناکام رہا اور اس کے برعکس الزام پاکستان پر عائد کر دیا ہے۔
امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر ریزر کی طرح تیز کنکریٹ کی باڑ بھی میکسیکو کے عوام کو امریکہ میں داخل ہونے سے نہ روک سکی۔ اسی طرح پہاڑیوں اور وادیوں والی 2400 کلو میٹر پاک افغان سرحد بھی شہریوں کو داخل ہونے سے کسی طور نہیں روک سکتی دہشت گردوں کی تو دور کی بات ہے۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ اپنی دہشت گردی کی حکمت عملی میں ردوبدل واشنگٹن کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ افغان طالبان کو
اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے ساتھ ان کے سابقہ تعلقات کی وجہ سے محض دہشتگرد گروپ قرار نہیں دیا جانا چاہیے اس کے اب بھی افغانستان میں پیروکاروں کا ایک گروپ ہے لہذا طالبان کا قلع قمع کرنے والی انسداد دہشت گردی جنگ ہرگز کامیاب نہیں ہو گی ۔ مضمون میں کہا گیاہے کہ واشنگٹن میں پہلے ہی اس ضرورت کو تسلیم کیاہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں اور افغان استحکام کو یقینی بنانے کیلئے
ثالثی کا حصول انتہائی موثر اقدام ہے تاہم امریکہ اور طالبان کے درمیان اعتماد کے فقدان اور واشنگٹن کی غیر تسلسل والی پالیسی کی وجہ سے مذاکرات کے نتیجے میں کئی برسوں میں کافی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔