کوالالمپور ( آن لائن )ملائیشیا کی نجی فضائی کمپنی ’ایئر ایشیا‘ کی ایئر ہوسٹس کے سرخ یونیفارم پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا، اورمقامی قانون سازوں نے یونیفارم کو مسافروں کے جذبات کو ابھارنے کا سبب قرار دے دیا۔ملائیشیا کے سینیٹرز عبداللہ مت یاسیم اور میگت ذوالقرنین عمرالدین نے دعویٰ کیا ہے کہ ’ایئر ایشیا‘ کی خاتون فضائی میزبانوں کا لباس مسافروں کے جذبات کو ابھارتا ہے، جب کہ لباس کی چمک سے مسافروں کی
آنکھیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔خیال رہے کہ ’ایئر ایشیا‘ کا شمار ملائیشیا سمیت خطےکی سستی ترین فضائی کمپنیوں میں ہوتا ہے، اس کی ایئر ہوسٹس سرخ رنگ کا مختصر یونیفارم پہنتی ہیں۔ملائیشین قانون سازوں نے جہاں ’ایئر ایشیا‘ کی فضائی میزبانوں کے لباس کو غیر مناسب قرار دیا، وہیں انہوں نے ’ملنڈو ایئر‘ کی فضائی میزبانوں کے یونیفارم کو قدرے بہتر قرار دیا۔سینیٹ اجلاس کے دوران سینیٹرز نے دلیل دی کہ ’ملنڈو ایئر‘ کی فضائی میزبانوں کے لباس میں ان کے جسم کے انتہائی حساس عضوے پوشیدہ ہوتے ہیں۔سینیٹر عبداللہ مت یاسیم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’ایئر ایشیا‘ کی فضائی میزبانوں کا سرخ یونیفارم جہاں مسافروں کے جذبات کو ابھارتا ہے، وہیں اس کی چمک آنکھوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایئر ایشیا کی فضائی میزبانوں کا لباس خصوصی طور پر نوجوانوں کے لیے ٹھیک نہیں، کمپنی کو ان کے یونیفارم کی ڈیزائن تبدیل کرنی چاہیے۔عبداللہ مت یاسیم نے انکشاف کیا کہ جب وہ ایئر ایشیا میں فضائی سفر کرتے ہیں تو ان کی اہلیہ ان سے متعلق پریشان اور خوفزدہ رہتی ہیں۔انہوں نے وضاحت کی کہ اگرچہ ’ملنڈو ایئر‘ کی فضائی میزبانوں کا لباس بھی کوئی خاص اچھا نہیں، تاہم وہ ’ایئر ایشیا‘ کی ایئرہوسٹس کے لباس سے بہتر ہے، کیوں کہ اس سے جسم کے اہم عضوے پوشیدہ رہتے ہیں۔عبداللہ مت یاسیم کے دلائل سے سینیٹر میگت ذوالقرنین عمرالدین نے بھی اتفاق کیا، جو ملائیشین نیشنل سیالٹ فیڈریشن (پی ای ایس
اے کے اے) کے جنرل سیکریٹری بھی ہیں۔