ریاض/لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی حکام نے کرپشن کے الزامات میں گرفتار شہزادوں اور سابق وزرا سے اثاثوں کے بڑے حصہ سے بحق سرکار دستبردار ہونے کی شرط پر ان کو رہا کرنے پر غور شروع کردیا۔برطانوی خبررساں ادارے روئٹر کے مطابق سعودی عرب کے حکام کرپشن کے الزامات میں حراست میں لیے جانے والے شہزادوں اور سابق وزرا سے اثاثوں کے بڑے حصہ سے بحق سرکار دستبردار ہونے کی شرط پر ان کو رہا کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
برطانوی خبررساں ادارے روئٹرز نے سعودی ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ حکام حراست میں لیے گئے افراد کے اثاثوں جن میں ان کی جائیداد، بینک کھاتوں اور حصص کا جائزہ لے رہی ہے اور ان کے بینک کھاتوں میں جمع کی گئی رقوم کو اثاثوں سے الگ کر رہی ہے۔درجنوں شہزاے، اعلی حکام اور بڑی کارروباری شخصیات بشمول کابینہ کے کئی اراکین اور ارب پتی لوگ اس وقت کرپشن کو ختم کرنے کے نام پر شروع کی گئی مہم کے تحت حراست میں ہیں۔بین الاقوامی تجزیہ کاروں کو ماہرین کے خیال میں اس مہم کا اصل مقصد شہزادہ محمد بن سلمان کی تخت تک پہنچنے کی راہ کو ہموار کیا جانا بھی ہے۔زیر حراست ارب پتی شہزادوں میں پرنس ولید بن طلال بھی ہیں جن کے مغربی ممالک اور امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیوں میں حصص ہیں۔زیرِ حراست ایک اور کاروباری شخصیت کے بینک کھاتوں سے ان کے حراست میں لیے جانے کے بعد کروڑوں سعودی ریال نکلوائے گئے ہیں۔ذرائع کے مطابق ایک اور اعلی سرکاری اہلکار نے چار ارب سعودی ریال کی مالیت کے اپنے حصص سے دستبردار ہونے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔روئٹرز نے ایک اور نامعلوم سرکاری اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ سعودی حکومت نے اس ہفتے کے اوائل میں بینک کھاتے منجمد کرنے کے احکامات سے آگے بڑھتے ہوئے قرضوں سے پاک اثاثوں اور جائیداد کی ضبطگی کا حکم بھی جاری کیا تھا۔
سعودی حکام کی طرف سے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا رہا اور ذرائع اپنے شناخت ظاہر کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کیونکہ زیر حراست افراد سے انفرادی سطح پر ہونے والے معاہدوں کو عام نہیں کیا جا رہا۔معاشی امور کے انتہائی مقتدر اخبار کے حوالے سے روئٹرز نے اطلاع دی ہے کہ حکومت مبینہ کرپشن میں ملوث ان افراد کے 17 فیصد اثاثے ضبط کرنا چاہ رہی ہے تاکہ تیزی سے کم ہوتے ہوئے سرکاری خزانے کو بھرا جا سکے۔برطانوی خبر رساں ادارے نے ایک اور ذریعے سے کہا ہے کہ اگر یہ افراد مبینہ طور پر غیر قانونی طریقوں سے کمائی گئی اپنی دولت چھوڑے پر تیار ہو جاتے ہیں تو ریٹز کارلٹن ہوٹل میں حراست سے ان کا آزادی مل سکتی ہے۔
سعودی حکام کو زیرِ حراست افراد کے اثاثوں اور بینک کھاتوں کا کھوج لگانے کے لیے بین القوامی ماہرین، آڈٹ فراموں اور تحقیق کاروں کی مدد حاصل ہے۔سودی حکام نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ کرپش کے خلاف تحقیقات کے تحت دو سو آٹھ افراد سے تفتیش کی جا رہی ہے اور ایک اندازے کے مطابق ایک سو ارب ڈالر رشوت کے ذریعے کمائے گئے۔حکام کے مطابق ان تحقیقات کا دائرہ سلطنت کی سرحدوں سے پار بھی وسیع کیا جا رہا ہے۔گرفتار کیے جانے والے ایک اور سرکردہ کاروباری شخص محمد المودی ہیں جن کی دولت کے بارے میں بین الاقوامی میگزین فوربز کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ وہ دس اعشاریہ چار ارب امریکی ڈالر ہے۔سعودی عرب، اتھوپیا اور سویڈن میں پھیلے ہوئے ان کے کارروبار میں تعمیراتی، زرعی اور توانائی کی کمپنیاں شامل ہیں۔