بیجنگ (آئی این پی )دشمنیوں کو کم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جس بات پر اتفاق رائے طے نہ پا سکے اس کو ایک طرف رکھتے ہوئے باہمی مفاد کی بنیاد پر اقتصادی تعاون قائم کیا جائے ،چینی سرکاری میڈیا نے کہا ہے کہ چین پاکستان کو ’’ دہشتگردی کی مدد کرنیوالا ‘‘ قر ار دینے کی کسی بھی کوشش کی پرزور مخالفت کرے گا ۔چینی سرکاری میڈیا نے بھارت کو تجویز پیش کی ہے کہ وہ 46بلین امریکی ڈالر لاگت کے اقتصادی راہداری میں شرکت کیلئے پاکستانی فوج کے اعلیٰ جنرل کی طرف سے پیش کی جانیوالی ’’زیتون کی شاخ ‘‘ کو قبول کر لے ،
سرکاری ملکیت گلوبل ٹائمز میں شائع شدہ ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ ’’حیرانگی ایک طرف بھارت کو چاہئے کہ وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری میں شرکت کی کوشش میں پاکستان کی طرف سے پیش کی جانیوالی زیتون کی شاخ کو قبول کرنے پر غور کرے ‘‘۔مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ اس قسم کا موقع سرسری ہو سکتا ہے اس بات کا امکان ہے کہ اگر نئی دہلی نے جنگل کی تحریک کا بروقت انداز میں جواب نہ دیا تو سی پیک میں بھارت کی شمولیت کے بارے میں کھلے رویے کو پاکستان کی اپوزیشن آوازوں کی طرف سے فوری طورپر ہدف تنقید بنایا جائے گا ۔مضمون میں لکھا گیا ہے کہ دشمنیوں کو کم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جس بات پر اتفاق رائے طے نہ پا سکے اس کو ایک طرف رکھتے ہوئے باہمی مفاد کی بنیاد پر اقتصادی تعاون قائم کیا جائے ۔مضمون نگار کا کہنا ہے کہ بھارت سی پیک کے ذریعے کھلنے والے نئے تجارتی روٹوں کے ذریعے اپنی برآمدات کو فروغ دے سکتا ہے اور چین کے ساتھ تجارتی خسارے میں کمی کر سکتا ہے ۔ مزید برآں پاکستان اور جموں و کشمیر کی سرحد سے ملنے والا بھارت کا شمالی حصہ منصوبے میں بھارت کی شمولیت سے زیادہ اقتصادی پیداواری رفتار حاصل کرے گا ،
اسی جریدہ میں شائع شدہ ایک اور مضمون میں کہا گیا ہے کہ ’’ ریاض کی دعوت جو نئی دہلی کیلئے باعث حیرت بنی ہے کا زیادہ تر مقصد جذبہ خیر سگالی ہے انہوں نے جہاں سی پیک میں بھارت کی مداخلت کا اشارہ دیا ہے وہاں انہوں نے منصوبے میں بھارت کی شرکت کا خیر مقدم کیا ہے جو اس امر کا غماض ہے کہ پاکستان بھارت کو منصوبے سے خارج نہیں کرنا چاہتا ہے ۔مضمون میں کہا گیا ہے کہ اس کے ساتھ ہی اگر کوئی ملک پاکستان کو ’’ دہشتگردی کی حمایت کرنے والا ‘‘ قراردینا چاہتا ہے اور پاکستان کو ڈس کریڈٹ کرنا چاہتا ہے تو پھر چین اور انصاف کے علمبردار دیگر ممالک اس قسم کے طرز عمل کی بھرپور مخالفت کریں گے ۔مضمون میں کہا گیا ہے کہ اپریل 2015ء میں چینی صدر شی چن پھنگ کے دورہ پاکستان کے بعد سے سی پیک میں خاصی پیشرفت ہوئی ہے ۔
مضمون میں کہا گیا ہے کہ تاہم بعض بین الاقوامی قوتیں اور بالخصوص بھارت سی پیک اور ون بیلٹ و ون روڈ منصوبے کو جغرافیائی سیاسی پس منظر میں دیکھنے کے عادی ہیں ، ایک طرف یہ اس جغرافیائی سیاسی مسابقتی مائنڈ سیٹ کے مطابق ہے جس پر وہ اسرار کرتے ہیں دوسری طرف ایسا اس وجہ سے ہے کہ ان کی سی پیک اور بیلٹ و روڈ کی دفاعی پیچیدگیوں کے بارے میں زبردست قیاس آرائی ہے ۔ مضمون میں لکھا گیا ہے کہ سی پیک کی خوش اسلوبی سے پیشرفت کو یقینی بنانے کے لئے پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ وہ مستحکم اور پرامن ملکی اور گھیرے والا ماحول اور سازگار پروفائل قائم کرے ۔مضمون میں کہا گیا ہے کہ انسداد دہشتگردی ۔افغانستان امن عمل اور کشمیر میں امن و استحکام کیلئے پاکستان کوششیں کررہا ہے تا کہ وہ بین الاقوامی معاشرے کو یہ دکھا سکے کہ وہ امن پر عمل کا خواہاں ہے ۔مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ سی پیک نہ صرف دوطرفہ تعاون بلکہ طویل المیعاد عرصے میں کثیر الجہتی منصوبہ ہے جس کا مقصد علاقائی اقتصادی ادغام ہے لہذا یہ کھلا اور مشمولہ ہے اور چین اور پاکستان کو امید ہے کہ بھارت، افغانستان ، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک شرکت کر کے سٹیک ہولڈرز بن سکتے ہیں ۔