واشنگٹن(نیوز ڈیسک) امریکی اسپیشل آپریشنز تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکی فورسز نے افغانستان کے شہر قندوز کے ہسپتال پر فضائی حملہ وہاں ایک پاکستانی کی موجودگی کی اطلاع پر کیا، جو انٹیلی جنس معلومات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ طالبان کی سرگرمیوں کو مربوط کررہا تھا۔یاد رہے کہ رواں ماہ 3 اکتوبر کو قندوز کے ہسپتال پر امریکی طیاروں کی بمباری میں کم ازکم 22 افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں مریض اور ہسپتال کا عملہ بھی شامل تھا۔امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے ایک سابق انٹیلی جنس عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی اسپیشل آپریشنز تجزیہ نگاروں نے ہسپتال کے نقشوں پر مشتمل کچھ ثبوت اکھٹے کیے ہیں۔ جن میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں، ایک مبینہ ‘پاکستانی آپریٹو’ اور اس کی سرگرمیوں کو ٹریس کررہی تھیں.انٹیلی جنس معلومات کے مطابق مذکورہ ہسپتال کو طالبان کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کی جانب سے استعمال کیا جارہا تھا اور وہاں بھاری اسلحہ موجود تھا.مذکورہ سابق عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حملے کے بعد کچھ امریکی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ یہ حملہ بالکل منصفانہ تھا.وہ اس ‘نتیجے’ پر پہنچے تھے کہ حملے کے دوران ہسپتال میں موجود پاکستانی بھی مارا جاچکا ہے، جس کے بارے میں خیال ہے کہ وہ پاکستانی کی خفیہ ایجسنی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے لیے کام کرتا تھا.واضح رہے کہ مذکورہ شخص کے آئی ایس آئی سے مبینہ تعلق یا ہلاکت سے متعلق ان ‘نتائج ‘ کی حمایت میں عوامی سطح پر کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا.ابتداءمیں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل کیمپ بیل نے قندوز کے ہسپتال پر بمباری کے واقعے پر معذرت کی تھی تاہم حملے کو جائز قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فضائی حملہ ان شدت پسندوں کے خلاف کیا گیا جو امریکی فوجیوں کو فائرنگ کا نشانہ بنا رہے تھے۔جبکہ اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدیداروں نے افغانستان کے شمالی شہر قندوز میں عالمی طبی امداد کے ادارے میڈیسنس سانس فرنٹیئرز (ڈاکٹرز ود آو¿ٹ بارڈرز) کے زیر انتظام چلنے والے ہسپتال پر امریکی فوج کی بمباری کو مجرمانہ غفلت اور ناقابل معافی جرم قرار دیا تھا.اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون کی جانب سے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ عالمی قوانین کے تحت، حملہ کرنے والوں کو شفاف اور جامع تحقیقات کرکے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔دوسری جانب افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نمائندہ خصوصی نکولس ہیسم نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہسپتال مریضوں کے علاج کے لیے ہوتے ہیں جنہیں کسی بھی صورت حملے کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا اور نہ ہی فوجی مقاصد کے لیے طبی سہولیات کی آڑ لی جاسکتی ہے۔امریکی فوجیوں کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ایم ایس ایف کی کمیونیکشن مینیجر کیٹ اسٹیگ مین نے کہا تھا کہ حملے کے وقت ہسپتال میں کوئی طالبان جنگجو موجود نہیں تھا۔دوسری جانب امریکی صدر باراک اوباما نے بھی قندوز ہسپتال پر امریکی فضائی حملے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا. ان کا کہنا تھا کہ وہ حقائق کی پوری تفصیل جاننے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔وائٹ ہاو¿س کے مطابق امریکی صدر نے اپنے افغان ہم منصب سے ہلاکتوں پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ان کی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتے رہنے کا عزم کیا تھا۔