اسلام آباد(نیوز ڈیسک)امریکی عہدیداران کا کہنا ہے کہ روس نے پچھلے ایک روز اور اس سے پہلے کے عرصے کے دوران دو ٹینک لینڈنگ کشتیاں اوراضافی طیارے شام میں بھیجے ہیں اور اس کے علاوہ چھوٹی تعداد میں بحری انفنٹری فورسز بھی تعینات کی گئی ہیں۔دو امریکی عہدیداران نے برطانوی خبررساں ایجنسی رائیٹرز کے ساتھ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ روسی فوج کی شام میں اس نقل وحرکت کے ارادے ابھی تک غیر واضح ہیں۔ ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی معلومات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان فوجیوں کی توجہ شامی صدر بشار الاسد کے مضبوط گڑھ ساحلی شہر الاذقیہ کے قریب ایک نئے فضائی اڈے کی تعمیر پر ہے۔دریں اثناء شام میں جاری سیاسی اور فوجی پیش رفت سے واقف لبنانی ذرائع کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز شام میں روسی فوجیوں نے فوجی آپریشنز میں حصہ لیا ہے اور ان فوجیوں کی تعداد ابھی تک کم ہی ہے۔
مزید پڑھئے: بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کو پھر پاکستان کی یاد ستانے لگی
ایک ذرائع کے مطابق “روسی فوجیوں نے چھوٹی تعداد میں آپریشنز میں حصہ لینا شروع کیا ہے مگر ابھی تک بڑی فورس نے کوئی حرکت نہیں کی ہے۔ شام میں کافی تعداد میں روسی موجود ہیں مگر انہوں نے ابھی تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ایک اور ذرائع کا کہنا تھا کہ “روسی فوجی شامیوں کے ساتھ مل کر آپریشنز میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کا کردار زیادہ تر مشورے دینے تک محدود ہے۔شامی عہدیداروں نے شام میں روسی فوجیوں کے کسی قسم کے جنگی کردار کی باتوں کو مسترد کیا ہے۔ بدھ کے روز ہی ماسکو کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ روس کے فوجی ماہرین شام میں موجود تھے تاکہ دمشق کو روسی اسلحے کی کھیپ بحفاظت پہنچائی جاسکے۔روس نے شام میں موجود اپنی فوجی قوت کی تعداد اور اس کے کردار کے حوالے سے بات کرنے سے گریز کیا ہے۔ امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں ماسکو نے اپنے اتحادی بشار الاسد کی مدد کے ممکنہ ارادے کے تحت شام میں اپنی موجودگی بڑھا دی ہے۔شامی وزیر اطلاعات نے اس ہفتے کے دوران کہا تھا کہ کوئی روسی فوجی شامیوں کے ساتھ محاذ جنگ پر نہیں لڑ رہا ہے۔