اسلام آباد(نیوز ڈیسک)ناروے کی حکومت نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے ارکان افغان معاشرے کے نمائندوں کے ساتھ غیر رسمی بات چیت کے لیے ناروے میں ہیں۔ ان مذاکرات کو ابتدائی بات چیت کی نئی علامت سمجھا جا رہا ہے۔ناروے کی حکومت اور افغان میڈیا کے مطابق ان غیر رسمی مذاکرات کا مقصد افغانستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بات چیت کرنا ہے۔ اوسلو میں ناروے کی وزارت خارجہ کے ترجمان فروڈے اینڈرسن کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ناورے ایک غیر رسمی مباحثے کی میزبانی کر رہا ہے، جس میں مختلف سیاسی پس منظر رکھنے والے افغان باشندے شریک ہیں۔ شرکاء میں سیاسی نمائندے بھی شامل ہیں، سول سوسائٹی کے اراکین بھی جبکہ خواتین اور افغان طالبان بھی شامل ہیں۔تاہم اس سرکاری ترجمان کا کہنا تھا کہ بلائے گئے مہمان اپنی ذاتی حیثیت میں وہاں موجود ہیں، ”کوئی بھی فرد کسی جماعت یا گروہ کی نمائندگی نہیں کر رہا۔ ہر کوئی ذاتی اظہار رائے کے لیے موجود ہے۔ اس مباحثے کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی یہ باضابطہ مذاکرات ہیں۔“یاد رہے کہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے متعدد ملک بار بار کوششیں کر چکے ہیں تاہم ان کوششوں کے ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ سکے۔ لیکن حالیہ کچھ عرصے سے افغان طالبان کے ساتھ غیر رسمی مذاکرات کے انعقاد میں اضافہ ہوا ہے اور ایسے مذاکرات کو صیغہئ راز میں بھی رکھا جاتا ہے۔بتایا گیا ہے کہ یہ گزشتہ ماہ قطر میں ہونے والے غیر رسمی اجلاس ہی کا نتیجہ تھا کہ طالبان کی طرف سے نفرت کے خاتمے اور انسانی حقوق کے احترام سے متعلق بیان جاری کیا گیا تھا۔ اس بیان میں خواتین کے لیے تعلیم اور مخصوص شعبوں میں کام کرنے کے حق میں موقف اختیار کیا گیا تھا۔افغان ٹیلی وژن ’ٹی وی ون‘ کے مطابق ماضی میں بھی ناروے میں ایسی میٹنگز ہوتی رہی ہیں لیکن اس اجلاس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں خواتین کثیر تعداد میں شرکت کر رہی ہیں۔ دوسری جانب افغان امن کونسل نے ان مذاکرات کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ افغان امن کونسل ماضی میں بھی طالبان کے ساتھ ہونے والے ایسے مذاکرات کی باقاعدگی سے تردید کرتی آئی ہے۔