اسلام آباد(نیوز ڈیسک)امریکہ کے شہر بوسٹن میں پولیس نے ایک ایسے شخص کو گولی مار کر ہلاک کردیا ہے جو انسداد دہشت گردی کے مقدمے میں 24 گھنٹے زیر نگرانی میں تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ جب ایف بی آئی اور بوسٹن پولیس اہلکاروں نے اس کا پیچھا کیا تو اس نے اس نے اہلکاروں پرایک بڑی چھری کے ساتھ حملہ کر دیا تھا۔یہ واقعہ منگل کی صبح بوسٹن کے رہائشی علاقے روزلنڈیل میں پیش آیا۔حکام کے مطابق 24 سالہ اسامہ رحیم 24گھنٹے زیرنگرانی تھا۔پولیس اور ایف بی آئی نے اسامہ رحیم کے شدت پسندی یا دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا۔بوسٹن پولیس کمشنر ولیم بی ایونز کا کہنا ہے کہ وہ شخص ’دہشت گردی سے متعلق کچھ معلومات کے حوالے سے مشکوک‘ تھا تاہم اس کی گرفتاری کا وارنٹ نہیں تھا۔حکام کے مطابق اہلکار اپنے اسلحہ سامنے لائے بغیر بات چیت کے لیے اس کے پاس گئے تھے۔حکام کے مطابق یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ عوام کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے ان کا مقصد اس کو گرفتار کرنا نہیں تھا۔پولیس کے بیان کے برعکس سان فرانسسکو کے ایک مذہبی رہنما ایمان ابراہیم رحیم نے اپنے فیس بک صفحے پر لکھا کہ ان کے بھائی کو اس وقت گولی مار دی گئی جب وہ ملازمت پر جانے کے لیے بس کا انتظار کر رہے تھے۔ایمان ابراہیم نے لکھا: ’ بوسٹن میں بس سٹاپ پر میرے چھوٹے بھائی اسامہ رحیم کام پر جانے کے لیے بس کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کا سامنا بوسٹن پولیس کے تین اہلکاروں سے ہوا اور بعد میں ان کے پیچھے تین بار گولی ماری گئی۔‘ایمان رحیم کا کہنا ہے کہ جس وقت ان کے بھائی کو گولی ماری گئی وہ اپنے والد سے فون پر بات کر رہے ہیں۔’آخری الفاظ جو انھوں نے میرے والد سے کہے جنھوں نے گولیوں کی آواز بھی سنی: مجھے سانس نہیں لے پا رہا۔‘پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس پر حملہ کر نے سے پہلے اس شخص نے بارہا کہنے کے باوجود اپنا ہتھیار نہیں پھینکا۔ولیم ایونز نے بوسٹن گلوب اخبار کو بتایا ’ہمارے اہلکاروں نے اس سے چھری پھیکنے کے پوری کوشش کی۔‘’بدقسمتی سے انھیں ایک جان لینا پڑی۔پولیس کا کہنا ہے کہ عینی شاہدین اور ویڈیو سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اہلکاروں نے جب گولی چلائی وہ اپنا دفاع کر رہے تھے، وہ ’فوجی طرز کی چھری‘ لہرا رہا تھا۔مشکوک شخص کو بعدازاں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں اس کی ہلاکت کی تصدیق ہوگئی۔بوسٹن پولیس اور ایف بی آئی کی جانب سے اس واقعے کی تفتیش کی جائے گی کہ اہلکاروں کا گولی چلانا درست اقدام تھا یا نہیں۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں