کھٹمنڈو(نیوزڈیسک) یونیسیف کے مطابق اپریل کے زلزلے سے پہلے ہی نیپال میں اسکول چھوڑنے کی زیادہ شرح ایک بڑا مسئلہ تھا۔نیپال میں اپریل میں آنے والے زلزلے کی وجہ تباہ ہونے والے ہزاروں سکول دوبارہ کھلنے شروع ہوگئے ہیں۔سات اعشاریہ آٹھ شدت کے اس زلزلے کے نتیجے میں آٹھ ہزار سکولوں میں 25 ہزار کلاس روم تباہ ہو گئے تھے اور آٹھ ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک بھی ہوئے تھے۔کھولے جانے والے زیادہ تر سکولوں کو بانس، لکڑی اور ترپال جیسے مواد سے عارضی بنیادوں پر تعمیر کیا گیا ہے۔سکولوں میں ابتدائی طور پر ایسی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی جن سے بچوں کو آفت کے صدمے سے بحالی میں مدد مل سکے۔واضح رہے کہ حکومت نے کھٹمنڈو اور اس کے ملحقہ اضلاع میں زلزلے سے نقصان کے باعث مئی کے مہینے کے لیے تمام سکول بند کر دیے تھے۔اپریل میں آنے والے زلزلے نے ہزاروں لوگوں کو بے گھر کر دیا تھا۔ایک اندازے کے مطابق گورکھا، سندھوپلچوک اور نواکوٹ کے اضلاع میں تقریباً 90 فیصد سکول تباہ ہوگئے تھے۔نیپال کی وزارتِ تعلیم کی ایک اہلکار لاوادیو آوشتھی نے میڈیاکو بتایا کہ ’دو سال تک سکول کی عمارتوں کی تعمیر مکمل کر لی جائے گی لیکن تب تک عارضی طور پر بنائے گئے سکولوں سے ہی گزارہ کرنا پڑے گا۔‘دو سال تک سکول کی عمارتوں کی تعمیر مکمل کر لی جائے گی لیکن تب تک عارضی طور پر بنائے گئے سکولوں سے ہی گزارہ کرنا پڑے گا۔سکول کے اوقات کو مختصر کرنے کے ساتھ بچوں کو ایسی سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے گا جن سے ان کی ذہنی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوں اور اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ نے سکولوں میں تصویری کتابیں اور دیگر اشیا تقسیم کی ہیں۔بچوں کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کے ساتھ وابستہ بچوں کی نشونما کی ماہر شیوا بھوسل کا کہنا ہے کہ ’سکولوں میں بچے مختلف قسم کےتفریحی مواد کے ساتھ خود کو مشغول کر کے بہت لطف اندوز ہو رہے ہیں۔‘یونیسیف کے مطابق اپریل کے زلزلے سے پہلے ہی نیپال میں سکول چھوڑنے کی زیادہ شرح ایک بڑا مسئلہ تھا۔