اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پا سداران انقلاب کے سابق چیف جنرل محسن نے سعودی عرب کی دھمکی دی ہے کہ اگر ریاض کی طرف سے حملے کا خطرہ ہوا تو سعودی عرب کو پتھر کے دور میں دھکیل دیا جائے گا۔ایران کی قومی سلامتی کی حدود جغرافیائی حدوں کی پابند نہیں ہیں بلکہ پورے خطے میں ایران کے مفادات ہیںدوسری جانب سعودی عرب کی قیادت نہایت محتاط انداز میں قدم اٹھا رہی ہے اور ایسا کوئی اشتعال انگیز بیان سامنے نہیں آیا جس میں ایران کی ان گیدڑ بھبکیوں کا جواب دیا گیا ہو، لیکن ایرانی عسکری قیادت صبح وشام سعودی عرب کو دھمکیاں دینے میں مصروف عمل ہے۔ایرانی خبر رساں ایجنسی “فارس” کے مطابق پاسداران انقلاب کے سابق چیف اور گارڈین کونسل کے سیکرٹری جنرل محسن رضائی کا کہنا ہے کہ “ایران کی قومی سلامتی کی حدود جغرافیائی حدوں کی پابند نہیں ہیں بلکہ پورے خطے میں ایران کے مفادات ہیں”۔ ایرانی عہدیدار کا یہ بیان اس بات کی گواہی ہے کہ تہران پورے عرب خطے کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا مرتکب ہو رہا ہے۔مبصرین کے خیال میں سعودی عرب کے خلاف ایرانی عہدیداروں کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات میں اضافہ اس وقت ہوا یمن میں ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف “فیصلہ کن طوفان” آپریشن کا آغاز ہوا ہے۔ ایرانی شدت پسند لیڈر کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ خدشہ لاحق ہے کہ جس طرح سعودی عرب نے یمن میں “فیصلہ کن طوفان”آپریشن شروع کیا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب شام میں بھی آپریشن شروع کرسکتا ہے۔ ایسی حالت میں عرب اور ایران کے درمیان ایک نئی جنگ چھڑ سکتی ہے۔خیال رہے کہ محسن رضائی ایران کے ان شدت پسند لیڈروں میں شامل ہیں جو ایک جانب عراق اور دوسری جانب شام اور یمن کے اپنے حامیوں کو عرب ممالک کے خلاف اکسانے میں مصروف ہیں اور دوسری جانب براہ راست سعودی عرب کے خلاف طاقت کے استعمال کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ سنہ 1980 ئ سے 1988ئ تک عراق اور ایران کے درمیان جاری رہنے والی جنگ میں حصہ لینے والے ایرانی فوجیوں میں محسن رضائی بھی شامل ہیں جنہوں نے عرب ممالک کے خلاف اپنی نفرت کا کھل کراظہار کیا تھا۔ حال ہی میں انہوں نے حوثیوں کو ایک کھلے خط میں لکھا تھا کہ وہ سعودی عرب کے “فیصلہ کن طوفان” آپریشن کے رد عمل میں اپنی مزاحمت پوری قوت کےساتھ جاری رکھیں۔ ماہرین کے خیال میں ایرانی عہدیداروں کے دھمکی آمیز بیانات دراصل خطے میں اپنی حمایت کے حصول کی کوشش ہے ورنہ ایران اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ سعودی عرب یا کسی بھی دوسرے عرب ملک پرحملہ نہیں کرسکتا ہے۔ ان دھمکیوں کا مقصد سعودی عرب کو شام کے معاملے سے دور رکھنا بھی ہوسکتا ہے کیونکہ سعودی عرب شام میں جاری عوامی بغاوت کی تحریک کی حمایت کررہا ہے جبکہ ایران صدر بشارالاسد کےساتھ مل کر معصوم شہریوں کے قتل عام کا مرتکب ہے۔ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کے “فیصلہ کن طوفان” آپریشن کے بعد سے تہران اور ریاض کےدرمیان سفارتی کشیدگی میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوچکا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ پچھلے دو ماہ میں متعدد بار تہران میں موجود سعودی ناظم الامور کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرا چکا ہے۔دو روز قبل صنعائ میں ایرانی سفارت خانے کے قریب بمباری کے بعد بھی تہران میں موجود سعودی ناظم الامور کو دفترخارجہ طلب کرکے سخت احتجاج کیا گیا۔