اسلام آباد(نیوز ڈیسک)یمن میں آئینی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے حوثی لیڈر عبدالملک الحوثی اور سابق منحرف صدر علی عبداللہ صالح سعودی عرب کی قیادت میں جاری فضائی آپریشن میں بمباری کے خوف سے کسی خفیہ مقام پر روپوش ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب باغیوں کو مزاحمتی کارروائیوں اور فضائی حملوں میں غیر معمولی جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔العربیہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق حوثی لیڈر عبدالملک الحوثی کی جانب سے گاہے بہ گاہے اپنے وفاداروں کو ہدایت اور مخالفین کو دھمکیوں پر مبنی بیانات سامنے آتے رہتے ہیں مگر وہ خود منظرعام پر نہیں آرہے۔ غالب امکان ہے کہ وہ کہیں سنگلاخ پہاڑوں میں روپوش ہیں۔یمنی ایوان صدر کے ذرائع کے مطابق حوثی لیڈر اس وقت جہاں کہیں بھی ہے۔ اس کی سیکیورٹی ایرانی جنگجو اور لبنانی حزب اللہ ملیشیا کے عناصرکررہے ہیں لیکن وہ کسی پہاڑی علاقے میں کسی غار میں روپوش ہیں جہاں خود اپنے وفاداروں سے بھی خطرہ دکھائی دیتا ہے۔عین ممکن ہے کہ حوثی لیڈر صعدہ گورنری کے حیدان جیسے پہاڑی علاقے میں رپوش ہوں کیونکہ یہ علاقہ افغانستان کے تورا بورا سے کافی مشابہت رکھتا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ مران اور حیدان کے علاقوں میں ایرانی ماہرین نے حوثیوں کو ایک آپریشن کنٹرول روم بھی تیار کر کے دیا ہے جہاں سے ملک میں ہونے والی لڑائی کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔ اس وقت سعودی عرب کی قیادت میں جاری فوجی آپریشن “فیصلہ کن طوفان” میں صعدہ کے علاقے پر زیادہ توجہ مرکوز کی گئی ہے کیونکہ یہ علاقہ حوثیوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اتحادی طیاروں کی مسلسل بمباری کے بعد حوثیوں کی قیادت شہروں سے نکل چکی ہے۔ امکان ہے کہ وہ دور افتادہ غاروں میں روپوش ہوچکے ہیں۔صعدہ کے پہاڑی علاقوں کے علاوہ امکانی طور پر ذمار اور اس کے دیگر اضلاع میں بھی ایسی پہاڑی غاریں موجود ہیں جہاں باغی روپوش ہوسکتے ہیں۔جہاں تک سابق صدر علی عبداللہ صالح کا تعلق ہے تو ان کی کسی غار میں روپوشی کا امکان کم ہے لیکن وہ بھی بمباری کے خوف سے اپنے ٹھکانے مسلسل تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ ملک کے انٹیلی جنس اداروں کے ماہرین کا ایک گروپ تاحال علی صالح کا وفادار ہے اور وہی علی صالح کا تحفظ کررہے ہیں۔ علی صالح کی سیکیورٹی میں ری پبلیکن گارڈز اور نیشنل اسپیشل انٹیلی جنس فورس کے اہلکار شامل ہیں۔