کراچی(این این آئی)تپ دق (ٹی بی) موجودہ دور کی ایک خطرناک بیماری بن چکی ہے اور اس مرض کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد ایڈز اور ملیریا سے بھی کہیں زیادہ ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال26سے28 لاکھ سے افراد ٹی بی کے مرض کا شکار ہوکر ہلاک ہو جاتے ہیں جبکہ65سے70 لاکھ سے زائد افراد میں
ٹی بی کے مرض کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں،دنیا بھر میں ٹی بی کے مرض کی روک تھام کیلئے اہم اقدامات کئے گئے ہیں اورایک نئی تحقیق کے مطابق جولوگ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں انہیں تپ دق لاحق ہونے کے امکانات کہیں زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار معروف خاتون طبیب مسز فرحت منظوم نے پیر کو تپ دق سے بچائوکے عالمی دن کی مناسبت سے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ دنیا بھر میں تپ دق سے بچائو کا عالمی دن 24مارچ کو منایا جائے گا۔طبیبہ فرحت منظوم نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماہرین صحت ٹی بی جیسی مہلک مرض سے بچائو اور حفاظتی اقدامات بارے لوگوں کو آگاہی فراہم کریں۔انہوں نے کہا کہ ذیابیطس اورتپ دق سے شرح اموات پہلے ہی زیادہ ہیں مگر جب دونوں مرض ایک ساتھ لاحق ہوجائیں تو اموات کی شرح کئی گنا بڑھ جاتی ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی ادارہ صحت دنیا بھر میں ٹی بی جیسی مہلک بیماری کے خاتمے کیلئے کوشاں ہے اورشرح اموات
میں کمی آئی ہے لیکن اس جانب مزید روک تھام کی ضرورت ہے،کیونکہ ٹی بی ایک اچھوتی بیماری ہے جو ہوا کے ذریعے پھیلتی ہے جس کے شکار مریض کے کھانسنے سے بیکٹیریا ایک صحت مند شخص میں منتقل ہو جاتے ہیں، پاکستان میں ٹی بی کے مرض پر قابو پانے کیلئے موثر انداز میں کام کیا گیا ہے اوریہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد خطے کے دیگر ممالک کی نسبت نہایت کم ہے تاہم حکومت اس مرض کی روک تھام کیلئے مزید اقدامات کرے ۔