منگل‬‮ ، 01 جولائی‬‮ 2025 

پاکستان کاربن کریڈٹ برآمدات سے سالانہ ایک ارب ڈالر کماسکتا ہے، ماہرین

datetime 18  ستمبر‬‮  2024
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(این این آئی)موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق قانون سازی کے باعث رضاکارانہ کاربن کریڈٹ مارکیٹ تیزی سے ابھر رہی ہے، پاکستان کاربن کریڈٹ کی برآمدات کرکے سالانہ ایک ارب ڈالر کی آمدنی حاصل کرسکتا ہے.یہ بات کلائمٹ ایکشن سینٹر میںمیڈیاکو ایک خصوصی بریفنگ میں بتائی گئی۔ اس موقع پر کلائمٹ ایکشن سینٹر کے ڈائریکٹر یاسر، مجتبیٰ بیگ اور ماحولیات کی کنسلٹنٹ زویا تنیو نے بریفنگ دی۔

ماہرین ماحولیات نے بتایا کہ دنیا کی ماحولیاتی آلودگی میں اگرچہ پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلی کے سبب پاکستان کو سالانہ 4ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہورہا ہے۔درجہ حرارت بڑھنے سے ماحول میں ناصرف زیریلی گیسز کی مقدار بڑھ جاتی ہے بلکہ اس سے گندم کپاس کی فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے جبکہ ایک انسان کے کام کرنے کی صلاحیت گھٹنے کے ساتھ عوام کی صحت کا بل بھی بڑھ جاتا ہے۔ماہرین نے کہاکہ باغبانی اور زراعت کے ذریعے اگر ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کو فضا سے جذب کرلیا جائے تو یہ ایک کاربن کریڈٹ ہوگا۔

پاکستان سے ایک کاربن کریڈٹ 10 سے 15ڈالر میں عالمی منڈی میں فروخت ہوسکتا ہے۔ماہرین نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کاربن کریڈٹ کی رضاکارانہ مارکیٹ کا حجم 950 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جس میں تسلسل سے اضافہ ہورہا ہے۔ کاربن کریڈٹ کے لئے کنسلٹنٹ رپورٹ اور اس کی تھرڈ پارٹی کی تصدیق بنیادی ضرورت ہے۔ماہرین نے کہاکہ فیکٹریوں گاڑی دھوئیں اور Un Treated پانی کی سمندر میں نکاسی سے گرین گیسز کی بڑی مقدار فضا یا آب وہوا کو زہریلا ہورہا ہے۔ پاکستان بھی فرانس پوسٹ انڈسٹریلسٹ نیٹ ٹمپریچر معاہدے کا سگنیٹری ہے جسکے تحت ہمیں اپنے درجہ حرارت کو نیٹ انکریز کو 1.5فیصد پر روکنا ہے لیکن اسکے برعکس صرف کراچی میں گزشتہ 10سال سے نیٹ انکریز کی شرح 2فیصد ہے۔

پیرس معاہدے کے تحت آلودگی کی شرح میں کمی ضروری ہے۔کلائمٹ ایکشن سینٹر کے مطابق کاربن کریڈٹ کی عالمی مارکیٹ 50ارب ڈالر ہے لیکن اسکے برعکس او سی سی آئی نے یہ تخمینہ لگایا ہے کہ دنیا میں کاربن کریڈٹ کی مارکیٹ 500ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ذرائع کے مطابق بیرونی خریداروں کے مطالبے پر پاکستان میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدی صنعتوں نے اپنے مصنوعات کی مینوفیکچرنگ میں آلودگی کی رپورٹنگ شروع کردی ہے۔ ذرائع نے بتایاکہ اگر پاکستانی مصنوعات کے برآمدکنندگان کی جانب سے رضاکارانہ طور پر آلودگی کی رپورٹنگ نہ کی گئی تو سال 2028 کے بعد عالمی مارکیٹوں میں انکی مصنوعات کی برآمدات خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



حکمت کی واپسی


بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…