اسلام آباد(آن لائن)وفاقی بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) نے ٹیکس چوروں کے خلاف ملک بھر میں منظم چھاپہ مار کارروائی کرنے کے لیے فیلڈ تشکیل دینے کی درخواست دے دی۔یہ ہدایات ایسے وقت میں سامنے آئی جب چند بڑے ٹیکس دہندگان کی ٹیکس چوری میں ملوث ہونے کی رپورٹس سامنے آئیں اور ان کے خلاف انکم ٹیکس آرڈیننس اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کے تحت متعدد کارروائی کرنے کے لیے ان کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔
ایف بی آر جے ڈائریکٹر جنرل آئی اینڈ آئی ڈاکٹر بشیر اللہ خان کا کہنا تھا کہ ‘انٹیلی جنس اور انویسٹی گیشن ڈائریکٹوریٹ کی تمام فیلڈ فارمیشنز کو ٹیکس چوروں، ٹیکس فراڈ کرنے والوں، منی لانڈرنس اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت دی گئی ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘عدم تعمیل کرنے والوں اور ٹیکس چوروں کے خلاف منظم چھاپوں اور کو ملک بھر میں بڑھایا جائے گا’۔اب تک ٹیکس چوروں کی نشاندہی کراچی، فیصل آباد، لاہور اور ملتان سے سامنے آئی ہے۔دریں اثنا ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس کی جانب سے جاری ایک سرکاری بیان میں غیر رجسٹرڈ افراد جو ٹیکس کے قابل اشیا بنا رہے ہیں اور سیلز ٹیکس کے لیے رجسٹرڈ نہیں ہیں، کے خلاف مہم تیز کرنے کا کہنا گیا ہے۔اس حوالے سے ڈائریکٹوریٹ آف ملتان نے ایک ٹیم تشکیل دی ہے جو اپنی حدود میں پلاسٹک کے پائپ اور واٹر ٹینکس بنانے والے غیر رجسٹرڈ افراد کے خلاف کارروائی کریں گی۔ایسے افراد سیلز ٹیکس چوری میں ملوث ہیں کیونکہ ان کا کاروبار ٹیکس کے قابل اشیا بغیر رجسٹریشن کے بنارہا ہے، یہ اقدام سیلز ٹیکس فراڈ کے ذمرے میں آتا ہے۔اس حقیقت کے برعکس کہ ان کے یوٹیلیٹی بلز لاکھوں روپے مالیت کے ہوتے ہیں، وہ غیر رجسٹرڈ رہتے ہیں۔
ٹیم نے خرید/فروخت، بینکنگ سے متعلقہ ریکارڈز اور بل بکز سمیت کئی اہم ریکارڈ اکٹھا کرلیے ہیں اور کیس میں تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔ایف بی آر کے آئی اینڈ آئی ڈائریکٹوریٹ نے کراطی میں ایک اور اسکینڈل بے نقاب کیا ہے جو غیر رجسٹرڈ ٹیکسٹائل یونٹس کا ٹیکس دیے بغیر ٹیکس دیے کام کر رہا ہے۔ٹیکسٹائل یونٹس گرے کپڑے اور ایمبرائڈری کی پیداوار میں ملوث ہے تاہم ملک کے ٹیکس رول میں رجسٹرد نہیں ہے۔
ٹیکس ٹیم نے 4 ٹیکسٹائل یونٹس پر چھاپے مارے ہیں جو صنعتی علاقوں میں بغیر سیلز ٹیکس رجسٹریشن کے کام کر رہے تھے۔یہ یونٹس نہ صرف ٹیکس چوری کر رہے تھے بلکہ معروف ٹیکسٹائل یونٹس کی سیلز چھپانے میں بھی معاونت کر رہے تھے۔تفصیلات کے مطابق ایک بڑی غیر رجسٹرڈ ٹیکسٹائل یونٹ کی نشاندہی کی گئی ہے جس میں دھاگا بنانے والے 63 لومز سمیت گرے کپڑے بنانے کی دیگر مشینری لگی تھیں۔دیگر 3 ٹیکسٹائل ملز میں دو یونٹس گرے کپڑوں کی پیداوار میں ملوث تھے جبکہ ایک ایمبرائڈڈ کپڑے بنارہی تھی۔