لاہور(آن لائن)پاکستان کا شمار پٹرول کی سب سے زیادہ کھپت والے ممالک میں ہوتا ہے،صارفین سالانہ کروڑوں لٹر پٹرول استعمال کرتے ہیں،لیکن ہم اپنی ضرورت کا صرف 30 فیصد تیل خود پیدا کرتے ہیں،جبکہ باقی 70 فیصد دیگر ممالک سے درآمد کیا جا رہا ہے۔پٹرول کی اتنی بڑی مقدار میں کھپت کے پیش نظر ملاوٹ مافیا بھی ملک بھر میں سرگرم نظر آر رہا ہے،اور غیر معیاری ایندھن کی فروخت عام ہے۔کوالٹی کے لحاظ سے دنیا بھر
کے سب سے کم ترین معیار کا پٹرول ہمارے ملک میں فروخت کیا جا رہا ہے جو کہ نا صرف گاڑیوں کے انجن کی زندگی کم کر رہا ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی کا بھی سبب بن رہا ہے۔اس کیساتھ ساتھ بوجھ عوام کی جیب پر بھی پڑتا ہے،ملاوٹ شدہ پٹرول انجن زیادہ استعمال کرتا ہے۔اسی طرح پٹرول میں پائے جانیوالے ناقص ذرات گاڑیوں کے پارٹس کو نقصان پہنچاتے ہیں اور آئے روز گاڑیاں خراب ہو کر ورکشاپوں میں کھڑی نظر آتی ہیں۔عوام یہ غیر معیاری پٹرول ڈلوانے پر مجبور ہیں کیونکہ ایک عام شہری کے پاس ایسا کوئی طریقہ کار نہیں جس سے وہ معلوم کر سکے کہ یہ پٹرول کس قدر ملاوٹ شدہ ہے۔حکومتی اداروں کا اختیار ہے کہ وہ معیار کو جانچ کر ملاوٹ مافیا کو نکیل ڈالیں،اس کیساتھ ساتھ ایک شکایت مقدار سے کم پٹرول ڈالے جانے کے بارے میں بھی ہے،اکثر پٹرول پمپس نے اطلاعاً ڈیجیٹل میٹر کیساتھ چھیڑ خانی کر کے انہیں مطلوبہ مقدار سے کم پر فکس کر رکھا ہوتا ہے۔پٹرول کے حوالے سے ایک اور غیر قانونی سرگرمی جو نظر آتی ہے،وہ غیر رجسٹرڈ پٹرول پمپس کا قیام ہے جو کہ زیادہ تر نواحی علاقوں میں لوگوں نے چھپ چھپا کر قائم کر رکھے ہیں۔بڑی پٹرول کمپنیز کی جانب سے میعاد پوری ہو جانے والی پٹرول مشینیں جو کباڑیوں کو فروخت کر دی جاتی ہیں،
لوکل مافیا انہیں دوبارہ قابل استعمال بنا کر نواحی علاقوں میں لگا لیتا ہے اور غیر قانونی طور پر بلا اجازت پٹرول کی فروخت شروع کر دی جاتی ہے۔ پٹرول کے معیار کو جانچنے کیلئے رون (ریسرچ آکٹین نمبر) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔رون کا درجہ بڑھانے سے پٹرول کی کوالٹی کامعیار بڑھتا جاتا ہے۔ پاکستان میں فروخت کیا جانے والا ریگولر پٹرول 87 رون کا حامل ہے،جبکہ بھارت میں فروخت ہونے والا 91، برطانیہ اور ترکی
میں 95 رون والا فروخت کیا جا رہا ہے۔آئل لبریکنٹس کی صنعت سے وابستہ صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ اگر پٹرول کے معیار کو ایک رون بڑھایا جائے تو اس کی فی لٹر قیمت تقریباً 1 روپیہ بڑھ جائیگی۔ملک بھر میں پٹرول کے معیار کو تقسیم کر دیا جائے،جو کہ 87 سے 95 رون کے درمیان ہو۔ موٹرسائیکل اور چھوٹی گاڑیوں والے 87 رون جبکہ 1000 سی سی گاڑیوں کے مالکان 95 رون کا پٹرول ڈلواسکیں۔حال ہی میں اوگرا (آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی)
اور ہائیڈرو کاربن انسٹیٹیوٹ کی جانب سے پٹرول کے نمونہ جات کے لیبارٹری ٹیسٹ کروائے گئے،جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ریفائنریز پٹرول میں آکٹین کالیول بڑھانے کیلئے خطرناک کیمیکلز کااستعمال کر رہی ہیں جو کہ انسانی صحت کیلئے مضر ہے۔ ان کی جانب سے مؤقف اختیار کیا جاتا ہے کہ یہ کیمیکلز دنیا بھر کی ریفائنریز پٹرول میں ملاتی ہیں،اس لیے ہمارے ہاں بھی ایسا کیا جاتا ہے۔درحقیقت یہ حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے
کہ وہ چیک کریں کہ کیا ہمارے ہاں ملائے جانے والے کیمیکلز کی مقدار ماحول دوست ہے بھی کہ نہیں۔کیونکہ پاکستان میں 70 فیصد فضائی آلودگی کا سبب ٹرانسپورٹ کادھواں ہے،جس کے باعث دمہ،گلے کے کینسر اور پھیپھڑوں و آنتوں کی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور سالانہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں کی اموات ہو رہی ہیں۔ان سب بیماریوں کے پیچھے کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈجیسی زہریلی گیسیں اور لیڈ اینڈ والٹائلیل آرگینیک
جیسے مرکبات شامل ہیں،جن کا اخراج ایندھن کے فضلہ سے ہوتا ہے۔مقامی طور پر تیار ہونیوالے گاڑیوں کے انجن بھی عالمی معیار کے نہیں،جس کے باعث یہ غیرمعیاری پٹرول انہیں زیادہ متاثر کرتا ہے۔ یورپ بھر میں یورو 3،جبکہ ہمسایہ ملک بھارت میں یورو 4 معیار کے انجن استعمال کیے جا رہے ہیں،جبکہ پاکستان میں ہم بمشکل یورو 2 کے معیار تک پہنچتے ہیں۔یورو 2 انجن میں استعمال کی جانے والی دھاتیں غیر معیاری اور کوالٹی
کے لحاظ سے ہلکی ہوتی ہیں جوکہ ناقص پٹرول کیساتھ مل کر ماحول کو مزید آلودہ کردیتی ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے کوالٹی کنٹرول سسٹم کو منظم کرے اورغیر قانونی اقدامات کرنے والے ملاوٹ مافیا کیخلاف کارروائی کرے کیونکہ یہ نا صرف پاکستانی شہریوں کو مالی نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ ماحولیاتی آلودگی کے اسباب پیدا کر کے آنے والی نسلوں کا سانس لینا بھی اجیرن کر رہے ہیں۔