کراچی(این این آئی) نئی آٹو انڈسٹری ڈویلپمنٹ پالیسی (اے آئی ڈی پی) کو آئے ہوئے بمشکل ایک سال ہوا ہے اور ابھی سے ہی اس کے نتائج برآمد ہونا شروع ہوگئے۔پالیسی نافذ ہونے کے بعد نئی غیر جاپانی کار کمپنیاں پاکستان میں آرہی ہیں، جبکہ پہلے سے موجود کمپنیاں بھی اس بات پر مجبور ہوگئی ہیں کہ وہ نہ صرف جدید ماڈلز کی گاڑیوں میں سرمایہ کاری کریں بلکہ عالمی معیار کے مطابق کوالٹی
اور مسافروں کی حفاظت اور سیکیورٹی فیچرز پر بھی کام کریں۔کم از کم 3 کار ساز کمپنیاں پاکستان میں آنے کا سوچ رہی ہیں، جن کے متعلق کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ وہ 2025 تک 5 لاکھ سے زائد گاڑیاں تیار کرلیں گی۔فرانس کی ’رینالٹ‘ وہ پہلی کار سازکمپنی ہے جس نے اپنی گاڑیاں پاکستان میں متعارف کرانے کے لیے گندھارا’ نسان‘ پلانٹ میں 100 ملین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔فرانسیسی کمپنی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جنوبی کوریا کی 2 کار ساز کمپنیوں ’ہنڈائی’ اور’ کیا‘ نے بھی مقامی کمپنیوں نشاط گروپ اور یونس برادرز کے اشتراک کے ساتھ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کردیا۔ان کمپنیوں کے اعلان کے بعد اب جرمن کمپنی ’آڈی‘ نے بھی ایک مقامی ڈیلر کے ذریعے بورڈ آف انویسٹمنٹ سے رابطہ کیا اور پاکستان میں اوریجنل ایکوئپمنٹ مینوفیکچرر (او ای ایم) پلانٹ لگانے کی تجویز پیش کی۔خیال رہے کہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے، اور یہاں کی نصف آبادی 30 سال سے کم عمر کے افراد پر مشتمل ہے جب کہ یہاں کاروں تک رسائی اس حد تک کم ہے کہ ہر ایک ہزار افراد کے لیے صرف 13 گاڑیاں دستیاب ہیں، جس وجہ سے عالمی کار ساز کمپنیوں کے لیے یہاں سرمایہ کاری کے کافی مواقع موجود ہیں۔