اسلام آباد(نیوزڈیسک)2008سے 2015،برطانوی ادارے کے پاکستان کے بارے میں تہلکہ خیز انکشافات،عوام میں غم و غصے کی لہردوڑ گئی- پاکستانی معیشت میں حال ہیں پیدا ہونے والے پر امیدی کے آثار کے باوجود ملک کو افسوسناک حد تک کم محصولات کی شرح کی وجہ سے ’وجودیاتی خطرہ‘ لاحق ہے۔برطانوی محکمہ برائے بین الاقوامی ترقی کی اعانت سے چلنے والے ادارے ’رفتار‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’پاکستانی معیشت کا بہت بھاری انحصارتجارتی قرضوں، عطیات دہندگان اور امداد پر ہے۔ ملک میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 9.4فیصد ہے اور یہ دنیا میں سب سے کم ترین شرحوں میں سے ایک ہے۔اس کے نتیجے میں پاکستان کا عوامی قرض 17ٹریلین (17سوکھرب روپے یا 163ارب ڈالر ہوگیا ہے) اور قرض کی اس مقدار میں2008کے بعد سے تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا کل حجم 232ارب ڈالر ہے جس میں حاصل ہونے والی آمدن کا 44 فیصد سود کی ادائیگیوں میں چلاجاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں ٹیکس کلچر فروغ نہ پانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ملک تاریخی طور پرغیر ملکی امداد اور قرضوں پر مزے کرتا رہا ہے۔ رپورٹ مزید بتاتی ہے کہ 68فیصد ٹیکس آمدن بالواسطہ ٹیکسوں کی مرہون منت ہے یہ وہ ٹیکس ہیں جو حکومت ایندھن، خوراک، بجلی پر ٹیکس لگا کر حاصل کرتی ہے اور اس طرح سے غریب کو ناجائز طور پر اسکے غریب ہونے کی سزا دیتی ہے۔محصولات کی آمدن میں اس کمی سے بجلی کی پیداوار سمیت ہر قسم کےا نفراسٹرکچر کی ترقی کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے۔ صرف بجلی کی پیداوار میں ملک کو چار ہزار میگاواٹ کی کمی کا سامناہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں ملک کی مجموعی قومی آمدن میں 15ارب ڈالر کا خسارہ ہوجاتا ہے۔ پاکستان اب بھی آئی ایم ایف سے6.6ارب ڈالر کے قرض کا پروگرام چلارہا ہے جس کے تحت اسے زبردست اقتصادی اصلاحات کرنا ہیں بالخصوص توانائی اور ٹیکسیشن کے شعبے میں۔رپورٹ کے مطابق 2014-15میں ملکی معیشت کی نمو کی شرح4.24فیصد رہی جبکہ فی کس آمدنی میں9.25فیصد اضافہ ہوا اوریہ ایسےشواہد ہیں جن سے طویل عرصے سے غیر صحتمند کارکردگی کا اظہار کرنے والے جنوبی ایشیا کے اس بڑے ملک میں سرمایہ کاروں کے اعتماد کا اظہار بھی ہوتا ہے –
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں