اسلام آبا(نیوزڈیسک) کاروباری حضرات ہی ملکی زرمبادلہ میں ’’اضافہ‘‘ نہیں کر رہے بلکہ بعض حکومتی شخصیات بھی اس کار خیر میں حصہ لے رہی ہیں۔ یہ حکومتی شخصیات کوئی اور نہیں بلکہ وزیرمملکت کے عہدے کے برابر ایک سینئر حکومتی شخصیت ہیں جو خاندان کے چند افراد سمیت 70کروڑ روپے ’’زرمبادلہ‘‘ حاصل کرنے پر نیب کی انکوائری بھگت رہے ہیں۔ انکوائری ان کے عدم تعاون کے باعث سست روی کا شکار ہو گئی ہے کیونکہ وہ اتنی بڑی رقم کا ذریعہ بتانے سے گریز کر رہے ہیں اور اس کے لیے معاشی اصلاحات ایکٹ1992ء کا سہار ا حاصل کر رہے ہیں، روزنامہ جنگ کے صحافی عمرچیمہ کی رپورٹ کے مطابق یہ ایکٹ زرمبادلہ کے ذرائع سے متعلق سوالات سےروکتا ہے اوریہیں سے منی لانڈرنگ کے وسیع وعریض کاروبار کے دروازے کھلتے ہیں اور کاروباری حضرات ٹیکس اور قانونی راستے کو بائی پاس کرتے ہوئے ہنڈی کاذریعہ استعمال کرتے ہیں اور ڈالروں میں کھیلتے ہیں۔ مذکورہ حکومتی شخصیت کا کہنا ہے کہ وہ نیب کو سب کچھ بتا سکتے ہیں مگر اس کے لیے پہلے اسے قانونی ضابطے تبدیل کرنا ہونگے۔ جب ان سے استفسار کیا گیا کہ قانونی تبدیلی کون کریگا، یہ تو آپ ہی کاکام ہے کہ قومی خزانے کو ہونیوالے نقصان کی روک تھام کا مؤثر طریقہ وضع کریں۔ اس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ حال ہی میں اپنے عہدے پر فائز ہوئے ہیں اور اس عہدے پرمتمکن ہونے کے بعد انہوں نے اپنا قانون سازی کا کردار منہا کر دیا ہے۔یاد رہے کہ مذکورہ شخصیت قومی خزانے میں ٹیکس کے ذریعے اضافہ کرنے کے سرکاری منصب پرفرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ پالیسی سے متعلقہ ایک خاندانی ادارے کے ڈائریکٹر بھی ہیں،خاندان کے دیگر افراد بھی اس ادارے سے منسلک ہیں۔ان کے خاندان کے بعض افراد پرویز مشرف دور میں اہم عہدوں پر فائز رہے، ’’دی نیوز‘‘ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے 3ستمبر کو شائع ہونیوالی منی لانڈرنگ سے متعلق خبر سے اظہارلاتعلقی کیا۔نیب کے مطابق بیرون ملک سےآنے والے 70کروڑ روپے خاندانی شوگر ملز میں لگائے گئے۔ نیب کا کہنا ہے کہ مشکوک ٹرانزیکشن رپورٹ کے مطابق ان کے اکائونٹ میں بڑی مقدار میں غیرملکی کرنسی جمع کرائی گئی جو فوراً ہی شوگر ملز کے اکائونٹ میں منتقل کر دی گئی، نیب آفیشل نے بتایا کہ ایف بی آر زرمبادلہ سے متعلق چھان بین نہیں کر سکتی تاہم نیب نیشنل اکائونٹبیلٹی آرڈیننس1999ء کے تحت یہ اختیار رکھتا ہے۔ مذکورہ شوگر ملز اور خاندان کے دیگر افراد پنجاب کی ایک اور کمپنی میں بھی بطور ڈائریکٹرکام کر رہے ہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ اس سینٹ سٹینڈنگ کمیٹی کا حصہ تھے جس نے اینٹی منی لانڈرنگ بل 2010ء منظورکیا تھا اور اب اس بل کے تحت نیب ان کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔