ہفتہ‬‮ ، 12 جولائی‬‮ 2025 

پاکستانی حکام بے ادب ہیں، سوئس کوہ پیما

datetime 6  اگست‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوزڈیسک) رواں سال پاکستان میں موجود دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کرنے والے واحد غیر ملکی کوہ پیما مائک ہورن کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام ’بے ادب‘ ہیں۔ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے سوئس کوہ پیما مائک ہورن کا کہنا تھا کہ وہ 14 مئی کو اسپانسر کی فراہم کی گئی دو جیپس پر وہ سوئیزر لینڈ میں اپنے گھر سے نکلے تھے۔انھوں نے کے ٹو کو سر کرنے کی مہم شروع کرنے سے پہلے 11 ممالک میں 11 ہزار کلومیٹر کا سفر طے کیا اور پاکستان میں داخل ہوئے۔مائک ہورن کا کہنا تھا کہ ان کو اور ان کی ٹیم کو اس وقت حیرانگی ہوئی جب پاکستانی چیک پوسٹ پر ان کو روک لیا گیا جبکہ ان کے پاس سوئیزرلینڈ میں قائم پاکستانی سفارت خانے سے جاری ہونے والا ویزا اور کے ٹو کو سر کرنے کا پرمنٹ موجود تھا۔سوئس کوہ پیما اور ان کی ٹیم کے اور فرد کو دو ہفتوں تک سکردو میں انتظار کرنا پڑا۔مائک ہورن نے بتایا کہ ان کے دوست پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم کی مداخلت اور مدد سے ان کو اٹھارویں روز اپنی مہم کو جاری رکھنے کی اجازت مل گئی۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ ان کو کیوں روکا گیا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں وہ یقین سے نہیں کہ سکتے، شاید ان کے ملٹری ریکارڈ یا ہندوستان میں کوکلتہ نائٹ راڈرز کی کرکٹ ٹیم کا کوچ ہونے پر ان کے ساتھ ایسا کیا گیا۔انھوں نے کہا کہ ویزا اور پرمنٹ خریدے جانے کے باوجود ان کے ساتھ ایسا سلوک ان کو ’بے ادبی‘ لگا ہے۔خیال رہے کہ مائک ہورن پاکستان میں 2007ء سے کوہ پیمائی کررہے ہیں انھوں ںے براڈ پیک، گاشر برگ وان اور ٹو سر کی ہے جبکہ 2013ء میں خراب موسم کے باعث وہ کے ٹو کو سر کرنے میں ناکام رہے اور انھیں واپس جانا پڑا۔ انھوں نے گذشتہ سال نیپال میں موجود دنیا کی پانچویں بلند ترین چوٹی ماکالو سر کی تاہم ان کی دلچسپی سب سے زیادہ قراقرم رینج میں ہی رہی۔مائک ہورن کا کہنا تھا کہ اس سال کے ٹو بہت زیادہ دشوار گذار ہوگیا تھا اور رواں سال سب سے زیادہ تودے گرے ہیں جن کے بارے میں اس سے پہلے کبھی نہیں سننا گیا تھا، یہاں تک کہ کے ٹو پر ’ایک روز میں چار چار بار تودے گرے‘۔مائک ہورن کا کہنا تھا کہ کے ٹو سر کرنے کی مہم میں جب ان کی ٹیم 7500 میٹر کی بلندی پر پہنچی (جسے انھوں نے دیتھ زون قرار دیا) تو ان کے ایک ساتھی کو فٹ بال کے برابر پتھر آکر لگا جس سے وہ زخمی ہوگیا۔ انھوں نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی ٹیم پر کوئی پتھر پھیک رہا ہے۔’ڈیتھ زون‘ کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ زیادہ اونچائی کی وجہ سے یہاں اوکسیجن کی انتہائی کمی ہوجاتی ہے اور فضا میں آکسیجن کی مقدار صرف 7 فیصد رہ جاتی ہے جس سے انسانی جسم خود کو مرتا ہوا محسوس کرتا ہے اور اس موقع پر اوکسیجن سلینڈر کا استعمال انتہائی ضروری ہوجاتا ہے۔اپنے ہاتھوں سے اشارے کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ ’الفاظ میں نہیں بتا سکتے کہ یہ میم کس قدر خطرناک تھی۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کان پکڑ لیں


ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…