ہفتہ‬‮ ، 20 دسمبر‬‮ 2025 

پاکستانی حکام بے ادب ہیں، سوئس کوہ پیما

datetime 6  اگست‬‮  2015 |

اسلام آباد(نیوزڈیسک) رواں سال پاکستان میں موجود دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کرنے والے واحد غیر ملکی کوہ پیما مائک ہورن کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام ’بے ادب‘ ہیں۔ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے سوئس کوہ پیما مائک ہورن کا کہنا تھا کہ وہ 14 مئی کو اسپانسر کی فراہم کی گئی دو جیپس پر وہ سوئیزر لینڈ میں اپنے گھر سے نکلے تھے۔انھوں نے کے ٹو کو سر کرنے کی مہم شروع کرنے سے پہلے 11 ممالک میں 11 ہزار کلومیٹر کا سفر طے کیا اور پاکستان میں داخل ہوئے۔مائک ہورن کا کہنا تھا کہ ان کو اور ان کی ٹیم کو اس وقت حیرانگی ہوئی جب پاکستانی چیک پوسٹ پر ان کو روک لیا گیا جبکہ ان کے پاس سوئیزرلینڈ میں قائم پاکستانی سفارت خانے سے جاری ہونے والا ویزا اور کے ٹو کو سر کرنے کا پرمنٹ موجود تھا۔سوئس کوہ پیما اور ان کی ٹیم کے اور فرد کو دو ہفتوں تک سکردو میں انتظار کرنا پڑا۔مائک ہورن نے بتایا کہ ان کے دوست پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم کی مداخلت اور مدد سے ان کو اٹھارویں روز اپنی مہم کو جاری رکھنے کی اجازت مل گئی۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ ان کو کیوں روکا گیا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں وہ یقین سے نہیں کہ سکتے، شاید ان کے ملٹری ریکارڈ یا ہندوستان میں کوکلتہ نائٹ راڈرز کی کرکٹ ٹیم کا کوچ ہونے پر ان کے ساتھ ایسا کیا گیا۔انھوں نے کہا کہ ویزا اور پرمنٹ خریدے جانے کے باوجود ان کے ساتھ ایسا سلوک ان کو ’بے ادبی‘ لگا ہے۔خیال رہے کہ مائک ہورن پاکستان میں 2007ء سے کوہ پیمائی کررہے ہیں انھوں ںے براڈ پیک، گاشر برگ وان اور ٹو سر کی ہے جبکہ 2013ء میں خراب موسم کے باعث وہ کے ٹو کو سر کرنے میں ناکام رہے اور انھیں واپس جانا پڑا۔ انھوں نے گذشتہ سال نیپال میں موجود دنیا کی پانچویں بلند ترین چوٹی ماکالو سر کی تاہم ان کی دلچسپی سب سے زیادہ قراقرم رینج میں ہی رہی۔مائک ہورن کا کہنا تھا کہ اس سال کے ٹو بہت زیادہ دشوار گذار ہوگیا تھا اور رواں سال سب سے زیادہ تودے گرے ہیں جن کے بارے میں اس سے پہلے کبھی نہیں سننا گیا تھا، یہاں تک کہ کے ٹو پر ’ایک روز میں چار چار بار تودے گرے‘۔مائک ہورن کا کہنا تھا کہ کے ٹو سر کرنے کی مہم میں جب ان کی ٹیم 7500 میٹر کی بلندی پر پہنچی (جسے انھوں نے دیتھ زون قرار دیا) تو ان کے ایک ساتھی کو فٹ بال کے برابر پتھر آکر لگا جس سے وہ زخمی ہوگیا۔ انھوں نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی ٹیم پر کوئی پتھر پھیک رہا ہے۔’ڈیتھ زون‘ کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ زیادہ اونچائی کی وجہ سے یہاں اوکسیجن کی انتہائی کمی ہوجاتی ہے اور فضا میں آکسیجن کی مقدار صرف 7 فیصد رہ جاتی ہے جس سے انسانی جسم خود کو مرتا ہوا محسوس کرتا ہے اور اس موقع پر اوکسیجن سلینڈر کا استعمال انتہائی ضروری ہوجاتا ہے۔اپنے ہاتھوں سے اشارے کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ ’الفاظ میں نہیں بتا سکتے کہ یہ میم کس قدر خطرناک تھی۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



جو نہیں آتا اس کی قدر


’’آپ فائز کو نہیں لے کر آئے‘ میں نے کہا تھا آپ…

ویل ڈن شہباز شریف

بارہ دسمبر جمعہ کے دن ترکمانستان کے دارالحکومت…

اسے بھی اٹھا لیں

یہ 18 اکتوبر2020ء کی بات ہے‘ مریم نواز اور کیپٹن…

جج کا بیٹا

اسلام آباد میں یکم دسمبر کی رات ایک انتہائی دل…

عمران خان اور گاماں پہلوان

گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘…

نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات

میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…