انقرہ(نیوزڈیسک)ترکی کے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے بتایا ہے کہ سوروچ میں ہونے والے خودکش بم دھماکے کے مشتبہ حملہ آور کی شناخت ہوگئی ہے۔ملک کے وزیراعظم شام سے متصل سوروچ کا دورہ کرنے والے ہیں۔ان کا یہ بیان پیر کو جنوبی شہر سوروچ میں ہونے والے بم دھماکے بعد سامنے آیا ہے جس میں کم از کم 31 افراد ہلاک اور سو کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مشتبہ حملہ آور کے بین الاقوامی اور مقامی سطح پر موجود رابطوں کا پتہ چلانے کے لیے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کا کہنا تھا کہ ’غالب امکان‘ ہے کہ اس کی ذمہ دار خود کو دولتِ اسلامیہ کہلانے والی تنظیم ہے۔خیال رہے کہ اس سے قبل ترکی کے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے شام کے ساتھ متصل ترکی کی سرحد پر سکیورٹی سخت کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔انھوں نے کہا ہے کہ جو بھی سوروچ بم دھماکے کا ذمہ دار ہے اس کے خلاف ضروری کارروائی کی جائے گی۔ تاہم انھوں نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ حکمراں جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں سے نمٹنے کے لیے ناکافی اقدامات کیے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ’کبھی کسی بھی دہشت گرد گروہ کو برداشت نہیں کیا۔‘
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسوگیس، ربڑ کی گولیوں اور واٹر کیننز کا استعمال بھی کیا ہے
ترکی کی کابینہ بدھ کو منعقد ہونے والے اجلاس میں شامی سرحد سےمتصل اپنے علاقوں میں سکیورٹی کے اضافی اقدامات کا جائزہ لےگی۔
اس سے قبل تفتیش کاروں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اس بم دھماکے میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کی خاتون خودکش حملہ آور ملوث تھی۔نامہ نگاروں نے کا کہنا ہے ترکی اب مسلح افراد کے خلاف کارروائی کر آغاز دیا ہے جن کے بارے میں اس پر انھیں نظرانداز کرنے کا الزام عائد کیا جاتا تھا۔ترکی میں شامی پناہ گزینوں کا سب سے بڑا کیمپ سوروچ میں واقع ہے اور اس میں 35 ہزار کے قریب شامی پناہ گزین موجود ہیں۔کوبانی میں گذشتہ سال ستمبر سے ’دولتِ اسلامیہ‘ کے شدت پسندوں اور کرد جنگجوؤں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئی تھیں اور اس وقت کرد جنگجوؤں نے شہر کا قبضہ واپس لے لیا ہے۔
دوسری جانب دھماکے کے بعد ہونے والے مظاہروں نے پرتشدد صورتحال اختیار کر لی۔ انقرہ اور استنبول سمیت ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسوگیس، ربڑ کی گولیوں اور واٹر کیننز کا استعمال بھی کیا ہے۔برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق مظاہرین حکومت کو دھماکے کی ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔استنبول میں ہونے والے مظاہرے میں ’ قاتل دولتِ اسلامیہ اور اوردغان، اے کے اس کی مددگار‘ کے نعرے لگائے۔واضح رہے کہ شام کی سرحد سے متصل شہر سوروچ میں واقع ایک ثقافتی سینٹر کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب فیڈریشن آف سوشلسٹ یوتھ ایسوسی ایشن’ ایس جی ڈی ایف‘ کے 300 ارکان کوبانی کی تعمیرنو میں حصہ لینے لیے کلچرل سینٹر میں موجود تھے۔
یوتھ فیڈریشن کی جانب سے دھماکے سے کچھ دیر پہلے سماجی رابطوں پر شیئر کی جانے والی تصویر
بی بی سی مشرق وسطیٰ کے نامہ نگار جم موئر کا کہنا ہے کہ ترکی پر ’دولت اسلامیہ‘ کی سرگرمیوں کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے تاہم حال ہی میں اس نے مسلح افراد کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا ہے اور یہ حملہ اسی کا ردعمل ہو سکتا ہے۔خیال رہے کہ شام کے شہر کوبانی پر خود کو دولتِ اسلامیہ کہلانے والی تنظیم کے حملے کے بعد وہاں سے لوگوں کی بڑی تعداد نےسوروچ میں پناہ لی تھی۔
(بشکرےہ۔بی بی سی)
سوروچ بم دھماکے کے مشبہ حملہ آور کی شناخت ہو گئی
22
جولائی 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں