ہفتہ‬‮ ، 09 اگست‬‮ 2025 

بیلٹ پیپر پر نشان کا تنازع ماضی میں کیا فیصلے دئیے جاتے رہے؟ سب کچھ کھل کر سامنے آگیا، نئی بحث چھڑ گئی

datetime 15  مارچ‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ میں ایسے مقدمات کی کثرت سے نظیریں موجود ہیں جس میں ووٹرز کی نیت اور شناخت کو مسترد اور ووٹ کو خفیہ رکھنے کی خلاف ورزی پر فیصلے دیئے گئے۔روزنامہ جنگ میں طارق بٹ کی شائع خبر کے مطابق معروف قانون دان کاشف ملک کہتے ہیں کہ

اس حوالے سے متعدد فیصلوں کی مثالیں موجود ہیں۔1987میں سپریم کورٹ میں ایک ایسا ہی ایشو سے نمٹا گیا جس میں بیلٹ پیپرز جن میں امیدوار کی نشاندہی کے لئے تجویز کردہ نشان جس کی حمایت میں ووٹ ڈالا گیا، وہ امیدوار کے نام اور نشان سے باہر نشان زدکیا گیا۔جس پر جج صاحبان نے آبزرویشن دی کہ ایسے میں ووٹ ڈالنے والے کی نیت کو طے کرنا ہوتا ہے، بیلٹ پیپر پر نشان لگانے کے لئے طے شدہ طریقہ کار کی عدم تعمیل پر انتخابی افسران اور عدالت اس اصول پر عمل کرتے ہیںکہ یہ ازخود بیلٹ مسترد کئے جانے کو بنیاد فراہم نہیں کرتا۔1966میں پریزائیڈنگ افسر نے مسترد شدہ ووٹ شمار کئے جانے کی اجازت دی۔ لیکن ہائی کورٹ نے اس کے خلاف فیصلہ دیا۔ 1983میں سپریم کورٹ نے ایک ایشو پر فیصلہ دیا کہ آیا الیکشن ٹریبونل پریزائیڈنگ افسر کے جائزہ لینے سے قبل بیلٹ پیپر کے درست ہونے کا جائزہ لے جس میں کہا گیا کہ متعلقہ افسر نے موقف اختیار کیا کہ شامل کئے جانے والے ووٹوں پر مدعاعلیہ نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔1981میں سپریم کورٹ نے ایک اپیل پر فیصلہ دیا کہ(5)ووٹ جو غلط شمار ہوئے ، ان کا ریٹرننگ افسر نے دوبارہ جائزہ لیا اور درخواست گزار کو کامیاب قرار دیا۔ اس موقع

پر یہ قرار دیا گیا کہ بیلٹ پیپر پر طے شدہ نشان سے ہٹ کر کوئی اور نشان کی وجہ سے ووٹ مسترد تصور نہیں ہوگا۔ پریزائیڈنگ افسران کے لئے یہ صاف اصول ہے کہ اگر بیلٹ پیپر سے بلاشک و شبہ یہ ظاہر ہوتا کہ اس نے ایک مخصوص امیدوار کے حق میں ووٹ دیا ہے۔تو کوئی اور نشان کی موجودگی سے ووٹ مسترد تصور نہیں ہوگا۔ 1988میں سپریم

کورٹ نے انگریزی یا اردو کے بجائے رومن اعداد سے بیلٹ پیپرز پر فیصلہ دیا کہ صرف اسی صورت میں ووٹ مسترد ہوں گے جب پہلے ہی شناخت کو ظاہر کردیا جائے۔ جب ایسا ہونا ظاہر نہیں کسی نے الزام بھی نہیں لگایا تو ووٹر کی نیت صاف ہے اور اس بنیاد پر بیلٹ پیپرز مسترد نہیں کئے جاسکتے۔ 2002میں یہ قراردیا گیا کہ بیلٹ پیپر پر نشان کا بنیادی مقصد ووٹر کی نیت کو یقینی

بنایا ہے۔بیلٹ پیپر پر نشان جو واضح طور پر ووٹر کی نیت کو ظاہر کرے لیکن شناخت ظاہر نہ ہو اسے درست ووٹ تسلیم کیا جانا چاہئے۔ یہ بھی قرار دیا گیا کہ بیلٹ پیپر پر ووٹ دینے والے کا ارادہ صاف ظاہر اور شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو وہ ضائع ووٹ تصور نہیں ہوگا۔

موضوعات:



کالم



انٹرلاکن میں ایک دن


ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…