اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی اعزاز سید روزنامہ جنگ میں اپنے آج کے کالم ” نیا قانون” میں لکھتے ہیں کہ سینئر صحافی مطیع اللہ جان کا 21جولائی 2020 کواسلام آباد میں اغوا ہوا۔ تو کچھ ہی دیر میں اغوا کی سی سی ٹی وی وڈیو منظر عام پر آگئی۔وڈیو میں دیکھا جاسکتا
تھا کہ کس طرح مطیع اللہ جان کو وفاقی دارالحکومت میں سرعام مارتے کرتے ہوئے ایک گاڑی میں بٹھا کر نامعلوم مقام پر لے جایا گیا۔واضح طور پر دیکھا جاسکتا تھا کہ اغوا کی اس کارروائی میں باوردی پولیس اہلکار اور سادہ کپڑوں میں چند ملبوس افراد ملوث تھے۔اغوا کے بعد اس وڈیو نے پورے سماج پر گہرا تاثر چھوڑا۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما اور تقسیم شدہ میڈیا کے نمایاں چہرے اپنے اختلافات بھول کر میدان میں آگئے اور مطیع اللہ جان کے اغوا کے خلاف ہر پلیٹ فارم پرآواز اٹھانے لگے۔ شور اتنا اٹھا کہ چند گھنٹوں بعد ہی اغوا کاروں نے مطیع للہ جان کو رہا کردیا۔کچھ روز بعد پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما و سینیٹر فرحت للہ بابر کو نجانے کیا خیال آیا۔ انہوں نے معلومات تک رسائی کے قانون مجریہ 2017 کا سہارا لیا اور وزارت داخلہ و اسلام آباد پولیس کو درخواست دیدی کہ اس قانون کے تحت مطیع للہ جان کے اغوا کے وقت اسلام آباد کی شاہراہوں پر لگے سیف سٹی کیمروں کی وڈیو فوٹیج انہیں فراہم کردی جائے۔وزارت داخلہ کے
افسران اور اسلام آباد پولیس کے اس وقت کے آئی جی عامرذوالفقار کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ معاملہ مختلف مراحل طے کرتا ہوا پاکستان انفارمیشن کمیشن کے پاس پہنچ گیا۔پاکستان انفارمیشن کمیشن اسی قانون کے تحت قائم کیا گیا وہ ادارہ ہے جس میں پہلی بار تین کمشنرز،
چیف انفارمیشن کمشنر اعظم خان اور انفارمیشن کمشنرز زاہد عبدللہ اور فواد ملک ایڈووکیٹ تعینات ہیں۔ یہ کمیشن ان تمام درخواستوں کی سماعت کرتا ہے جن کو معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت وفاقی اداروں نے شرف پذیرائی نہ بخشا ہو اور عوام کو معلومات تک رسائی کے آرٹیکل 19 اے
کے تحت دئیے گئے آئینی حق سے محروم رکھا ہو۔اس قانون کی روح بھی یہی کہتی ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے چلنے والی ریاست کے بارے میں عام آدمی کو بھی معلومات فراہم کی جائیں۔سینیٹر فرحت اللہ بابر کی درخواست اس پلیٹ فارم پر پہنچی تو بھلا ہو کمیشن کے تینوں معزز ارکان کا
جنہوں نے قانون کی روشنی میں درخواست گزار کے حق میں فیصلہ دیدیا مگر وزارت داخلہ کے عہدیداروں اور اسلام آباد پولیس نے قانون اورفیصلے کے اطلاق کے حوالے سے کچھ نہ کیا۔انفارمیشن کمیشن نے فیصلے پر عملدرآمد کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تو 7 جنوری 2021 کو
وزارت داخلہ کے ڈپٹی سیکرٹری نے شاید تادیبی کارروائی کے خوف سے اسلام آباد پولیس کے ایک افسر کے ہمراہ کمیشن کے سامنے پیش ہوکر بتا دیا کہ جناب ہم اگلے 24 گھنٹوں کے اندر مذکورہ وڈیو فوٹیج معززدرخواست گزارکودے دیں گے۔وہ دن اور آج کا دن میں سینیٹر فرحت للہ بابر
اور وزارت داخلہ کے سینئر افسروں کو ہرروز اس امید سے فون کرتا ہوں کہ اب اس قانون پر اطلاق کا آغاز ہوا کہ ہوا؟ آج نجانے کیوں مجھے اپنی حالت سعادت حسن منٹو کے شہرہ آفاق افسانے نیا قانون کے کردار منگو کوچوان جیسی لگنے لگی ہے۔