اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ اس وقت نیب کے زیر حراست ہیں۔ان پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنی آمدن سے زیادہ اثاثے بنائے جن میں پیٹرول پمپ، مختلف ہائوسنگ سوسائٹیز میں بنگلوں کی تعمیر اور ہوٹلوں کے علاوہ بے نامی کاروبار، اس حوالے سے
نامور صحافی ریاض سہیل بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ پر جب بھی مخالفین نے تنقید کی ہے تو ان کے ماضی کو ہمیشہ ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا اور انھیں میٹر ریڈر ہونے کا طعنہ دیا جاتا رہا۔خورشید شاہ زمانہ طالب علمی سے لیکر قومی سیاست کے کئی نشیب و فراز دیکھ چکے ہیں۔ ان کا تعلق سندھ کے روایتی سیاستدانوں کے گھرانوں سے نہیں بلکہ سیاست میں انھوں نے اپنے بل بوتے پر اپنا نام اور مقام بنایا ہے۔خورشید شاہ کی پیدائش سکھر میں ہوئی، سیاست میں دلچسپی ان کی زمانہ طالب علمی سے رہی، سنہ 1970 میں وہ اسلامیہ سائنس کالج میں سٹوڈنٹ یونین کے صدر بن گئے جس کے بلدیاتی انتخابات میں کونسلر منتخب ہوئے لیکن کچھ ہی عرصے بعد واپڈا میں میٹر ریڈر کی ملازمت اختیار کرلی۔خورشید شاہ نے سیاست کو ترجیح دی اور میٹر ریڈر کی ملازمت سے مستعفی ہوگئے۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سٹوڈنٹس ونگ میں سرگرم ہوگئے
اور تحریک بحالی جمہوریت تک وہ صوبائی سطح کی کوئی شخصیت نہیں تھے۔سنہ 1988 کے انتخابات میں جب پارٹی کارکنوں کو بھی ٹکٹ دینے کا فیصلہ ہوا تو اس میں خورشید شاہ کا بھی قرعہ نکل آیا اور وہ سکھر سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ صوبائی حکومت میں انہیں
ٹرانسپورٹ اور تعلیم کے قلمدان دیے گئے۔سنہ 1990 کے انتخابات میں وہ سکھر سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اس کے بعد سے وہ سنہ 2018 کے انتخابات تک سات مرتبہ مسلسل کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔سنہ 2002 کے انتخابات میں وہ صوبائی اسمبلی سے بھی امیدوار تھے
اور پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے امیدواروں میں بھی ان کا شمار کیا جاتا تھا۔ لیکن ان کا نامزدگی فارم رد ہوگیا جس کے بعد انھیں قومی اسمبلی میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر منتخب کیا گیا اور جب بینظیر بھٹو خود ساختہ جلاوطنی میں تھیں تو اپوزیشن لیڈر کے فرائض انھوں نے انجام دیے۔
سنہ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں وہ اوورسیز پاکستانی اور مذہبی امور کے وزیر رہے۔خورشید شاہ قومی سطح کی سیاست میں پارٹی کے اندر رضا ربانی اور اعتزاز احسن جیسے پارٹی کے دانشور گروپ کے قریب رہے، پارٹی کی بیک ڈور ڈپلومیسی میں بھی ان کا نام سامنے آتا تھا۔
دیگر جماعتوں کے ساتھ بھی ان کے اچھے تعلقات رہے۔ نگران حکومت سے لیکر چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی تک، ان سب میں حزبِ اختلاف کے قائد کے طور پر وہ اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد خورشید شاہ کے مختلف موقعوں پر پارٹی رہنمائوں سے اختلافات
سامنے آتے رہے ہیں۔ سابق وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ اور ان کے درمیان عوامی سطح پر اختلافات سنہ 2010 کے سیلاب کے وقت اس وقت سامنے آئے جب سیلاب کاپانی دریائے سندھ کو کٹ لگا کر صحرا کی طرف موڑنے کی تجویز آئی۔ اس کے علاوہ ڈویژن اور ضلع کی سطح پر
افسران کی تعیناتی اور تبادلوں میں ان سے مشورہ نہ ہونے پر بھی وہ اظہار ناراضگی کرتے رہے ہیں۔سکھر کی سطح پر پارٹی سیاست میں اسلام شیخ کی آمد نے انھیں شہری سیاست سے سکھر کی دیہی سیاست تک محدود کر دیا۔ اسلام الدین شیخ آصف علی زرداری کے قریب رہے ہیں اور
ٹکٹوں کی تقسیم پر دونوں کے درمیان بیان بازی ہوتی رہی ہے، لیکن اس کے باوجود خورشید شاہ کے داماد اویس شاہ اور بیٹے فرخ شاہ رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔خورشید شاہ کے صحافیوں سے ہمیشہ اچھے مراسم رہے ہیں۔ ان کا آبائی شہر سکھر ہو یا اسلام آباد، دونوں جگہ صحافی ان کے
لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ سندھ میں جہاں دیگر سیاست دان زیر تنقید رہتے ہیں وہاں خورشید شاہ کا نام شاذ و نادر ہی سامنے آیا ہے۔خورشید شاہ نے اپنے سیاسی سفر میں قید و بند کی صعوبتوں کا بہت کم عرصہ سامنا کیا ہے۔ تحریک بحالی جمہوریت کے دوران وہ مختصر وقت کے لیے گرفتار ہوئے
اور جب سنہ 2007 میں بینظیر بھٹو وطن واپس آئیں اور ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ ہوا جس میں بینظیر بھٹو کو گھر میں نظر بند کیا گیا تو خورشید شاہ ان کے ہمراہ تھے۔گزشتہ پچاس برسوں کے سیاسی کیریئر میں انھوں نے سیاسی میدان میں شہرت اور دولت دونوں ہی حاصل کیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں دونوں مرتبہ گرفتاریاں سیاسی سرگرمیوں کی بنیاد پر تھیں اس مرتبہ وہ کرپشن کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔