بیجنگ (این این آئی)چین دنیا کی سب سے بڑی خلائی طاقت بننے کی خواہش رکھتا ہے اور اس حوالے سے اس نے ایک اور سنگ میل عبور کر لیا ہے۔ چاند پر بھیجا گیا یہ خلائی مشن وہاں سے پتھروں کے نمونے لے کر واپس زمین پر پہنچے گا۔چین اپنی فوج کی قیادت میں اسپیس پروگرام کو وسعت دینے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے اور 2022ء تک ایسا خلائی اسٹیشن قائم کرنا چاہتا ہے،
جہاں پر خلابازوں کا قیام بھی ممکن ہو گا۔ اسی طرح چینی خلاباز چاند پر بھی قدم رکھنا چاہتے ہیں۔ چین کی طرف سے آج روانہ کیے جانے والے مشن کا بنیادی مقصد چاند سے پتھروں کے نمونے جمع کر کے زمین پر لانا ہے تاکہ سائنس دانوں کو چاند کی ابتدا، وہاں کی سطح، تشکیل اور آتش فشانی سرگرمیوں کے بارے میں جاننے میں مدد مل سکے۔ چین نے منگل کی صبح اپنے جنوبی جزیرے ہینان سے ’لانگ مارچ فائیو‘ راکٹ کو چاند کے لیے روانہ کیا۔ اس راکٹ کا نام چینی چاند کی دیوی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ انسانوں کے بغیر یہ چینی خلائی جہاز آئندہ اتوار تک چاند پر پہنچے گا۔ مشن کی کامیابی کی صورت میں امریکا اور سابقہ سوویت یونین کے بعد چین ایسی کامیابی حاصل کرنے والا دنیا کا تیسرا ملک بن جائے گا۔ امریکا اور سوویت یونین نے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اپنے اپنے خلائی مشن چاند پر روانہ کیے تھے۔یہ خلائی مشن سن دو ہزار سترہ میں روانہ کیا جانا تھا لیکن فنی خرابی کے باعث اس کی روانگی میں تاخیر ہوئی۔ یہ چینی مشن چاند کا ایک مکمل دن وہاں سے نمونے جمع کرے گا۔ چاند کا ایک دن زمین کے چودہ دنوں کے برابر ہوتا ہے۔ امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے مطابق واپسی پر صرف ایک کیپسول ہی زمین پر پہنچے گا اور یہ دسمبر کے اوائل میں چین کے شمالی منگولیا ریجن میں لینڈ کرے گا۔ ہارورڈ سینٹر برائے ایسٹرو فزکس کے ماہر فلکیات جوناتھن میک ڈویل کا اس حوالے سے کہنا
تھا کہ اس مشن میں انتہائی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس میں نمونے حاصل کرنے کی ایسی کوشش کی جا رہی ہے، جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔میک ڈویل کا کہنا تھا، امریکا نے کبھی بھی ایسا روبوٹ نہیں بھیجا، جو نمونے لے کر واپس آیا ہو۔ سوویت کے سیمپل بہت ہی محدود قسم کے تھے، جو صرف چند مقامات سے حاصل کیے گئے تھے۔چین کا یہ مشن دنیا کا پہلا ایسا مشن ہو گا، جو اس قدر زیادہ اور متنوع نمونے ساتھ لائے گا۔