اسلام آباد (این این آئی)پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنمائوں نے مطالبہ کیا ہے کہ گلگت بلتستان کے الیکشن مقررہ وقت پر کروائے جائیں اور ان میں ایجنسیوں کی مداخلت نہ ہو،ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کے لئے ایڈمنسٹریٹو افسران کی بجائے جوڈیشل افسران کو لگایا جائے، اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے گلگت بلتستان کے حوالے سے پارلیمانی لیڈروں کا اجلاس بلانا ان کے دائرہ اختیار
میں نہیں آتا، پارلیمانی لیڈروں کا اجلاس لیڈر آف ہائوس بلا سکتے ہیں، آل پارٹیز کانفرنس کی تمام جماعتیں اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے گلگت بلتستان کے حوالے سے بلائے گئے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گی،گلگت بلتستان میں ایجنسیوں کی طرف سے لوگوں پر دبائوڈال کر حکومت کی طرف سے صحت کارڈ تقسیم کرکے پری پول ریگنگ کی جا رہی ہے، گلگت بلتستان کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی میٹنگ آرمی چیف کی بجائے وزیراعظم کو بلانی چاہیے تھی اگر وزیراعظم کو اس میٹنگ میں نہیں بلایا گیا یا خود نہیں آئے تو اس پر انہیں استعفیٰ دینا چاہیے کیونکہ یہ سیاسی مینڈیٹ کی توہین کی گئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان پیپلزپارٹی سیکریٹری جنرل سید نیر حسین بخاری اور پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ ان کے ہمراہ کے پی کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل اعجاز دورانی، چیف میڈیا کوآرڈینیٹر نذیر ڈھوکی، ترجمان سیکریٹری جنرل راجہ نور الہٰی ، نعیم کیانی ، ایڈووکیٹ راجہ شکیل عباسی، صدف مرتضیٰ، افتخار شہزادہ اورایڈووکیٹ سجاد علی منگی موجود تھے۔ نیر حسین بخاری نے کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس 20ستمبر کو ہوئی جس میں 26 نکات کا اعلامیہ جاری ہوا۔ جس پر 12جماعتوں نے اتفاق کیا اور یہ جماعتیں اعلامیہ اور ایکشن پلان کی پابند ہیں۔ اعلامیے میں گلگت بلتستان کے حوالے سے کہا گیا کہ
“اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ گلگت بلتستان میں مقررہ وقت پر صاف و شفاف اور بغیر کسی مداخلت کے انتخابات کرائے جائیں، انتخابات کے بعد قومی اتفاق رائے گلگت بلتستان کو قومی ، سیاسی دھارے میں شامل کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ اجلاس قرار دیتا ہے کہ گلگت بلتستان کاعلاقہ بہت حساس ہے وہاں اس علاقے میں ایجنسیوں کی مداخلت ختم کی جائے تاکہ کوئی بھی ان انتخابات
کی شفافیت پر اعتراض نہ اٹھا سکے۔ اجلاس نے فیصلہ کیا کہ گلگت بلتستان کے انتخابات پر گہری نظر رکھی جائے گی”۔ نیر بخاری نے کہا کہ گلگت بلتستان کا الیکشن کمیشن پاکستان الیکشن کمیشن سے علیحدہ ہے۔ 2017ء ایکٹ کو اپنایا ہے جو پاکستان میں نافذالعمل ہے۔ 15نومبر کو انتخابات کی تاریخ رکھی گئی ہے اور انتخابی عمل شروع ہوگیا ہے۔ ہمارا چیف الیکشن کمیشن
گلگت بلتستان سے مطالبہ ہے کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افیسر، ایڈمنسٹریشن افسران کو نہ لگایا جائے بلکہ جوڈیشل افسران کو ریٹرننگ افسر لگایا جائے۔ اطلاعات ہیں کی ایڈمنسٹریٹو افسران کو ریٹرننگ افسر لگایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں اینٹیلی جنس بیورو کے لوگ مداخلت کر رہے ہیں اور ان کے ذریعے لوگوں پر پریشر ڈالا جا رہا ہے۔ یہ پری پول ریگنگ ہے۔ انہوں نے کہا
کہ گلگت بلتستان قومی اسمبلی کے اسپیکر کے دائر اختیار میں نہیں آتا اور وہ اس حوالے سے پارلیمانی لیڈروں کا اجلاس نہیں بلا سکتے اس حوالے سے لیڈر آف ہائوس پارلیمانی لیڈروں کا اجلاس بلا سکتے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کے پاس اس حوالے سے کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس کی تمام جماعتیں اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے گلگت بلتستان کے حوالے سے بلائے گئے
اجلاس میں شرکت نہیں کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمار چیف الیکشن کمیشن سے مطالبہ ہے کہ جو وفاقی وزراء گلگت بلتستان میں جا کر مداخلت کر رہے ہیں ان کے جلسے جلوسوں پر پابندی لگائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ 15نومبر کو گلگت بلتستان کے پہاڑوں پر برف پڑ جاتی ہے اور وہاں کے رہائشی نقل مکانی کرکے میدانی علاقوں میں آجاتے ہیں،الیکشن کمیشن کو ان کے ووٹ ڈالنے کے
حوالے سے بندوبست کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں کوئی وجود نہیںہے اور الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے جو وزراء اس میں مداخلت کر رہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کرے،2018ء کے الیکشن میں ہم نے اپنے منشور میں دیا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو ان کے آئینی حقوق دلائیں گے،1994ء میں پیپلزپارٹی نے پارٹی بنیادی پر الیکشن کروائے 2008ء
میں آصف علی زرداری نے وزیراعلیٰ اور انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پہلی مرتبہ وہاں کی ریاستوں کو گلگت بلتستان میں ضم کیا، ہمیں احساس ہے کہ گلگت بلتستان کی کیا آئینی اہمیت ہے۔ سید نیر حسین بخاری نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں کہہ دیا تھا کہ یہ وزیراعظم الیکٹڈ نہیں سلیکٹڈ
ہیں۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان انتخابات میں ان کے آئینی حقوق کے بارے میں فیصلہ ہوگا اور منتخب اسمبلی گلگت بلتستان کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔ جو صاف شفاف الیکشن سے ہی معرض وجود میں آسکتا ہے۔ انتخابات میں کسی بھی ایجنسی کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ گلگت بلتستان کو صوبے کا نام نہیں
دیا گیا تاہم پیپلزپارٹی نے اسے وزیراعلیٰ، اسمبلی اور تمام مراعات فراہم کیں۔ انہوں نے کہاکہ کسی کو کوئی اختیار نہیں ، یہ سیاسی پارٹیاں ہی گلگت بلتستان کے حوالے سے فیصلہ کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے میٹنگ آرمی چیف کی بجائے
وزیراعظم کو بلانی چاہیے تھی اگر ان کو آرمی چیف کی بلائی ہوئی میٹنگ میں نہیں بلایا گیا یا وہ خود نہیں آئے تو وہ استعفی دیں۔ آرمی چیف نے میٹنگ سکیورٹی معاملات پر بات کرنے کے لئے بلائی لیکن گلگت بلتستان کے حوالے سے بات کی گئی۔