اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’ہمیں مزید کتنی مرضی چاہیے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔کہانی نے یہاں سے ٹرن لے لیا‘ ہمیں پتا چلا وہ منڈی بہاؤالدین کی رہنے والی ہے‘ والد اور بھائی شوگر مل میں کام کرتے تھے‘ والد‘ بھائی اور والدہ کسی عزیز کی شادی پر جا رہے تھے‘ بس کا ایکسیڈنٹ ہوا‘ والدہ اور بھائی جاں بحق ہو گئے اور والد معذور ہو گیا‘ لڑکی تعلیم چھوڑ کر
والد کو پالنے لگی‘ جوان تھی‘ خوب صورت تھی‘ سر پر کوئی نہیں تھا چناں چہ ہر نظر گرم ہونے لگی‘ وہ خود کو شہر میں غیر محفوظ محسوس کرنے لگی‘ والد کے کسی دوست نے مشورہ دیا تم لاہور چلی جاؤ‘ نوکری کرو اور والد کی خدمت کرو‘ وہ والد کو لے کر لاہور آ گئی۔لاہور میں بھی لوگوں کی نظریں مردانہ تھیں‘ لوگ نوکری بعد میں دیتے تھے اور ہاتھ پہلے ملاتے تھے‘ وہ پاک باز‘ عبادت گزار اور پارسا لڑکی تھی‘وہ دکھی ہو گئی‘ اسے کسی لڑکی نے بتایا ہمارے ملک کے مرد کم زور عورتوں کے سامنے شیر اور طاقت ور کے سامنے بلی بن جاتے ہیں‘ تم خود کو بااعتماد اور کھلی ڈھلی پوز کرو‘ کوئی تم پر میلی آنکھ ڈالنے کی جرات نہیں کرے گا‘ یہ بات اس کے دل کو لگی اور اس نے سر سے دوپٹا اتارا اور وہ سینہ تان کر چلنے لگی‘ نتائج حیران کن ثابت ہوئے۔مرد اس کو دیکھ کر گھبراتے تھے اور دائیں بائیں ہو جاتے تھے‘ یہ اسے دیکھنے کی جرات بھی نہیں کرتے تھے‘ اس نے بتایا ہمارے معاشرے میں معذور والد کی بیٹیاں بھی غیر محفوظ ہوتی ہیں‘ مردوں کو جب پتا چلتا ہے عورت کا محافظ اٹھنے‘ بیٹھنے اور بولنے تک سے معذور ہے تو یہ اس کوآسان ٹارگٹ سمجھ لیتے ہیں چناں چہ یہ اپنے والد کو بھی لوگوں سے چھپانے لگی‘ اس نے گھر تبدیل کیا‘ یہ رات کو والد کو فلیٹ میں لائی اور اسے محلے داروں سے چھپا دیا‘ یہ اسے صبح کھانا کھلا کر چلی جاتی تھی۔والد سارا دن وہیل چیئر پر رہتا تھا‘
وہ پیشاب بھی وہیل چیئر پر کرتا تھا‘ وہ رات کو آتی تھی‘ والد کو صاف کرتی تھی‘ اسے کھانا کھلاتی تھی اور سلا دیتی تھی اور صبح اسے ناشتہ کرا کر چلی جاتی تھی‘ اس نے بتایا وہ ایک ٹیلرنگ شاپ پر کام کرتی ہے‘ دس گھنٹے کام کے بعد اسے اڑھائی ہزار روپے ملتے ہیں‘ یہ 1992ءتھا لہٰذا اس کا ٹھیک گزارہ ہو جاتا تھا‘ وہ اس دن غلطی سے استری جلتی چھوڑ گئی تھی‘ کمرے میں آگ لگ گئی اور والد نے
وہیل چیئر دروازے پر مارنا شروع کر دی اور یوں اس کی کہانی کھل گئی۔مجھے آج بھی اپنی شرمندگی یاد ہے‘ میرے روم میٹ بھی شرمندہ تھے‘ ہم اس وقت سٹرگل کی ایج میں تھے‘ بے روزگار تھے‘ ہمارے پاس درخواستوں اور انٹرویوز کی تیاری کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا تھا لہٰذا ہم نے اس بے چاری کے بارے میں کہانیاں بنانا شروع کر دی تھیں‘وہ چند دن مزید وہاں رہی اور پھر ایک دن سامان باندھ کر چلی گئی
لیکن ہمارے سینے پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شرمندگی کا داغ چھوڑ گئی۔میں ایک ہفتے سے ملک میں ”میرا جسم میری مرضی“ کا فساد دیکھ رہا ہوں۔میں جب بھی یہ بحث سنتا ہوں تو مجھے بے اختیار وہ یاد آ جاتی ہے اور میں دل سے تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہوں ہم پاکستانی مرد واقعی ظالم‘ واقعی وحشی ہیں‘ ہم کسی بھی عورت کے بارے میں غلیظ ترین رائے بنانے کے ایکسپرٹ ہیں۔میں حیران ہوں
”میرا جسم میری مرضی“ میں فحاشی‘ عریانی یا مذہب کی توہین کہاں چھپی ہے؟ کیا مرد کے جسم پر مرد کی مرضی نہیں ہوتی‘ ہم عورت کو صرف جسم کیوں سمجھتے ہیں‘ کیا یہ انسان نہیں اور کیا تعلیم‘ روز گار اور اظہار رائے میں اس کی مرضی نہیں ہونی چاہیے؟اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے عورت کو اپنی مرضی سے شادی کرنے اور طلاق لینے (خلع) کا حق دیا تھا‘ یہ دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے عورت کو وراثت میں حصہ دیا اور یہ اس قدر لبرل مذہب ہے کہ حضرت خدیجہؓ نے عورت ہوتے ہوئے
خود اپنی زبان سے نبی اکرم کا رشتہ مانگا تھا‘ کیا یہ مرضی نہیں تھی؟ ہم کس قدر تنگ نظر اور چھوٹے لوگ ہیں ہماری نظر میں جسم اور مرضی کا صرف ایک ہی مطلب ہوتا ہے اور وہ ہوتا ہے جنسی تعلقات ‘ میں مانتا ہوں ہم عورتوں کو بہت عزت دیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے وہ ہم کتنے لوگ ہیں؟ہم عزت دینے والے لوگ چند لاکھ سے زیادہ نہیں ہیں جب کہ باقی کیا کر رہے ہیں ؟آپ صرف اعدادوشمار نکال کر دیکھ لیجیے‘
ہم لڑکیوں کے چہروں پر تیزاب پھینکنے میں بھی دنیا میں چوتھے نمبر پر ہیںاور ہماری عورتیں تعلیم‘ روزگار‘ خوراک اور اعتماد میں بھی دنیا کے پست ترین درجوں میں آتی ہیں لیکن مرضی ہمیں صرف اپنی چاہیے! ہمیں آخر مزید کتنی مرضی چاہیے؟ کیا ہم عورتوں کی کھوپڑیوں کے مینار بنانا چاہتے ہیں ؟ ہم بڑے ہی دل چسپ لوگ ہیں‘ ہمارے شہروں میں ہیرا منڈیاں ہیں۔ہم شادیوں میں مجرے کراتے ہیں اور ہم سب کے موبائل فون
”میرا جسم تیری مرضی“ سے لبالب بھرے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ خلیل الرحمن قمر ہمارا ہیرو ہے جس کے ڈرامے میں ایک عورت دو مردوں کے درمیان پنگ پانگ بنی ہوئی تھی‘ یہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ میں دل سے سمجھتا ہوں ہم مردوں کو اس دن سے پہلے عورتوں کے کسی مارچ اور کسی نعرے پر اعتراض کا کوئی حق نہیں جب تک ہمارے محلوں کی بچیاں ہم سے خوف زدہ ہوئے بغیر سکول یا جاب پر نہیں جاتیں‘ یہ بے چاریاں تو ہمارے خوف سے گھروں سے نہیں نکلتیں لیکن ہمیں ”میری مرضی“ میں بھی فحاشی نظر آتی ہے‘ ہمیں مزید کتنی مرضی چاہیے؟ دل پر ہاتھ رکھیں اور سوچیں۔