اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)جاوید چوہدری اپنے کالم ’’عمران خان کا پہلا اچھا فیصلہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔عمران خان کی حکومت نے چار دن قبل پہلا اچھا فیصلہ کیا‘ حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نیب کے قوانین میں تبدیلی کر دی‘ نیب اب کاروباری اور صنعتی کمیونٹی کی کسی شخصیت کو گرفتار نہیں کر سکے گا‘ سرمایہ کاروں کے مقدمات متعلقہ فورمز پر جائیں گے‘
بیورو کریٹس کو بھی نیب کی گرفتاری سے باہر کر دیا گیا ہے‘ نیب 50کروڑ روپے سے زائد کی کرپشن کے ٹھوس ثبوتوں کے بغیر کسی سرکاری افسر کے خلاف کارروائی نہیں کر سکے گا اور یہ کارروائی بھی سکروٹنی کمیٹی کی اجازت سے ہو گی۔سیاست دانوں کے احتساب کے لیے بھی نیب کے اختیارات محدود کر دیے گئے ہیں‘ نیب کی گرفتاری کا استحقاق بھی کم کر دیا گیا‘ یہ اب پہلے تحقیقات کرے گا اور پھر گرفتاری ہو گی‘ نیب کسٹڈی بھی 90 روز سے 14 روز کر دی گئی اور یہ بھی طے ہو گیا کسی شخص کے خلاف اگر ایک مقدمہ بند ہو جائے گا تو یہ فائل دوبارہ نہیں کھل سکے گی‘ وغیرہ وغیرہ‘ اپوزیشن اس آرڈیننس کو عمران خان کا تاریخی یوٹرن اورمدر آف آل این آر او قرار دے رہی ہے۔یہ سمجھ رہے ہیں عمران خان اپنے وزراءاور اپنے دوستوں کو بچانے کے لیے یہ آرڈیننس لے کر آئے ہیں لیکن میں اسے عمران خان کی حکومت کا پہلا اچھا فیصلہ سمجھتا ہوں‘ یہ وہ کام ہے جو پاکستان پیپلزپارٹی اور ن لیگ دونوں اپنے اپنے ادوار میں کرنا چاہتی تھیں لیکن یہ عمران خان کے خوف کی وجہ سے یہ جرات نہ کر سکے تاہم عمران خان نے دل پر پتھر رکھ کر یہ فیصلہ کر دیا‘ یہ کام بہرحال ہونا ہی تھا اور یہ ہو گیا لہٰذا اپوزیشن کواب اسے کھلے دل کے ساتھ تسلیم کر لینا چاہیے۔اسے بغض عمران میں اس فیصلے کو ری ورس نہیں کرنا چاہیے‘ کیوں؟کیوں کہ اس کا نقصان حکومت سے زیادہ ملک کو ہو گا‘ نیب اس ملک میں خوف‘ معاشی عدم استحکام اور سیاسی توڑ پھوڑ کا آلہ بن چکا ہے‘
ہم اگر آج اس کو نہیں روکیں گے تو یہ ملک چلنے کے قابل نہیں رہے گا‘ یہ کشتی ڈوب جائے گی لہٰذا حکومت نے اپنے لیے ہی سہی مگر ایک اچھا فیصلہ کر دیا‘ اپوزیشن کو اب اس فیصلے کو مان لینا چاہیے تاکہ یہ ملک چل سکے‘ آصف علی زرداری نے سچ کہا تھا‘ معیشت اور نیب ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔نیب اگر سب کو ہی بلا لے گا تو کام کون کرے گا چناں چہ دیر آید درست آید‘ ہمیںآگے بڑھنا چاہیے‘
اس سے پہلے کہ اتنی دیر ہو جائے کہ ہم چلنے کے قابل ہی نہ رہیں‘ حساب ضرور ہونا چاہیے لیکن اس سے پہلے کتاب بھی تو ہو‘ہم پہلے کما تو لیں پھر حساب دے لیں گے‘ ہماری حالت یہ ہے ہم آج بھی سعودی عرب سے پٹرول ادھار لے رہے ہیں اور دوست ملکوں سے ڈالر لے کر سٹیٹ بینک چلا رہے ہیں لیکن احتساب ختم نہیں ہو رہا‘ دکان چلی نہیں اور اکاؤنٹیبلٹی پہلے شروع ہو گئی چناں چہ پورا ملک جام ہو کر رہ گیا۔
میرا خیال ہے حکومت اگر اس ملک کو واقعی چلانا چاہتی ہے تو پھر اسے احتساب کے عمل کو 20 سال کے لیے روکنا ہو گا‘ ہمیں پہلے چین اور یورپ کی طرح صرف اور صرف گروتھ پر توجہ دینی چاہیے‘ ہم انفرا سٹرکچر مکمل کریں‘ لوگوں کو پھلنے اور پھولنے دیں‘ کمپنیاں بننے اور فیکٹریاں لگنے دیں‘ ملک کو بزنس اور انویسٹمنٹ فرینڈلی بنائیں‘ احد چیمہ جیسے بیورو کریٹس کو عزت دیں‘
سرکاری افسروں کو منصوبے مکمل کرنے کا ٹاسک دیں اور جو افسر وقت پر پراجیکٹس مکمل کر دیں ان کو ہیرو بنائیں اور ہم جب دنیا کی دس بڑی اکانومیز میں شامل ہو جائیں تو بے شک ملک میں ٹکٹکیاں لگا دیں۔ہم بے شک سارے کرپٹ لوگوں کو پکڑ لیں‘ ہم پہلے کماد کو اگ تولینے دیں‘ چوروں کو بھی پھینٹا لگا لیں گے‘ہم آخر شہر بسانے سے پہلے کب تک چوروں کو تلاش کرتے رہیں گے‘ ہمیں کسی نہ کسی جگہ تو عقل کو ہاتھ مارنا ہوگا اور عمران خان نے بہرحال یہ کام کر دیا‘ وہ کام جو نوازشریف اور آصف علی زرداری خواہش کے باوجود نہیں کر سکے لہٰذا میں اس فیصلے پر حکومت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں‘ ویل ڈن عمران خان۔