ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

آرمی چیف کی مدت میں توسیع، پی پی،ن لیگ نے دھرنے میں دل سے مولانا فضل الرحمان کا ساتھ نہیں دیا،رانا ثناء اللہ کی حیران کر دینے والی باتیں

datetime 29  دسمبر‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(این این آئی) مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ دھرنے اور بعد میں کئے گئے فیصلے پر مولانا فضل الرحمان نے پیپلز پارٹی او ر(ن) لیگ کو اعتماد میں نہیں لیا اوری اسی وجہ سے،دونوں جماعتوں نے دھرنے میں دل سے مولانا فضل الرحمان کا ساتھ نہیں دیا،مولانافضل الرحمان کی جانب سے یکطرفہ فیصلہ کرنے پر دونوں جماعتوں نے ان سے فاصلہ رکھااور مولانافضل الرحمان نے جس طاقت کا مظاہرہ کیا تھا شاید اسی وجہ سے اس کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے،

اینٹی نارکوٹکس فورس کا مجھے گرفتار کرنا بہت حیران کن واقعہ تھا،سابق ڈی جی ایف آئی اے نے ایک دو جگہ پر میری گرفتاری کے حوالے سے بات کی تھی، وزیراعظم میرا نام لے کر گرفتار کرنے کی ہدایات دیتے رہے، عدالت نے تو کہہ دیا کہ آرمی چیف کی مدت کے حوالے سے چھ ماہ میں قانون سازی کریں،حکومت نے نظر ثانی کی درخواست دائر کر بڑی زیادت کی ہے، (ن) لیگ او رپیپلز پارٹی کی قیادت اشاروں کناروں میں اس معاملے پر بات کرنے کا کہہ چکی ہے۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ منشیات کے مقدمے میں میری گرفتاری حیران کن واقعہ تھاکیو،یک سال سے اینٹی کرپشن، ایف آئی اے اور نیب کے ذریعے میری گرفتاری کی کوششیں ہورہی تھیں،سابق ڈی جی بشیر میمن نے ایک دو جگہ میری گرفتاری کے حوالے سے ذکر بھی کیا اور جب حکومت کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی توپھر یہ راستہ اختیار کیا گیا۔ یہ بد ترین اور گھٹیا ترین کارروائی ہے، جس ملک میں یہ ہو سکتاہے وہاں سب کو چھ ہو سکتا ہے او ریہ تو جنگل کا قانون ہے۔ اگر پارلیمنٹ کے رکن کو سڑک سے پکڑ کر گودام سے نکال کر اس پر 15کلو ہیروئن ڈال دیں اور وہیں سے اپنے ماتحت کو گواہ بنا دیں، کوئی تفتیش اور انکوائری نہ کرے او راگلے روز عدالت میں پیش کر کے جیل بھیج دیا جائے یہ کیسا کیس ہے۔ کوئی انکوائری نہیں ہوئی،کوئی تفتیش نہیں ہوئی میرا کوئی بیان نہیں ہوا، ماتحت انسپکٹر اور سب انسپکٹر جنہیں اپنی نوکریوں کی فکر ہوتی ہے انہیں جو لکھ دیدیں وہ جھوٹ بول دیں گے۔

اس واقعہ کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے۔ میں اس معاملے کو پارلیمنٹ میں بھی اٹھاؤں گا اور سپیکر پرزور دوں گا کہ وہ غیر جانبدار کردار ادا کرتے ہوئے اس معاملے میں فیکٹ اینڈ فائنڈنگ کمیشن بنا دیں او رمیں اس کے سامنے پیش ہونے کے لئے تیار ہوں یا پارلیمنٹ جوڈیشل کمیشن کی سفارش کریں۔ مجھے امید ہے کہ ممبران پارلیمنٹ اور سپیکر اس کا نوٹس لیں گے اور میں عدلیہ میں بھی اس کا تحرک کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ میری گرفتاری کی وجہ اپوزیشن کو سیاسی انتقامی کارروائیوں کے ایجنڈے کے سوا کچھ نہیں او ریہی سوچ بنیاد ہے۔

مجھے تقریبا مہینہ ڈیڑھ مہینہ پہلے ذرائع معلوم ہوا تھاکہ بجٹ کے فوری بعد ایک منحرف گروپ سامنے لانا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں میں بطورپارٹی پنجاب کے صدر میں اس میں رکاوٹ ہوں اس لئے آپ کے خلاف کارروائی ہو گی۔ جس روز بجٹ اجلاس ختم ہوا۔ کچھ لوگ بنی گالہ میں ان سے ملے اور ہماری اطلاع کے مطابق یہ پانچ چھ لوگ تھے جن سے میں نے فوری رابطہ کیا اور کہا کہ آپ نے غلط کیا اور ان پر اس کا یہ اثر ہوا کہ سب لوگ واپس آ گئے ہیں اور انہوں نے اگلے روز میٹنگ میں اپنا موقف پیش کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جیل میں مجھ پر تشدد نہیں کیا گیا لیکن جیل میں جن حالات میں مجھے رکھا گیا کسی اور ان حالات میں نہیں رکھا گیا۔

مجھے ایک چھوٹے سے سیل میں رکھا گیا اور جن لوگوں کی ڈیوٹی ہوتی تھی انہیں بھی بند کر تالہ لگا دیا جاتا تھا تاکہ ان کو ملنے کے بہانے کوئی مجھے کوئی نہ ملے۔ سوائے فیملی ممبر میرے ساتھ کوئی ملاقات نہیں ہو سکتی تھی اورمجھے کوئی سہولت نہیں دی گئی، میں فرش پر سوتا رہتا ہوں، کھانے اور ادویات کے حوالے سے بھی کوئی سہولت نہیں دی گئی۔میری دائیں آنکھ میں انفیکشن کا علاج جاری تھا، میں نے ڈاکٹر سے کہا اگر مجھے علاج نہیں ملے گا تو اس کی ریکوری رک جائے گی لیکن انہوں نے کہا کہ آپ کو جیل ہسپتال میں قدم بھی نہیں رکھنے دینا اور باہر کا تو سوچیں بھی ناں۔انہوں نے کہا کہ میں نے جب دیکھا کہ انہوں نے مجھے کوئی سہولت نہ دینے تہیہ کر رکھا ہے

تو میں نے فیصلہ کر لیا کہ چیخ و پکار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور میں نے اللہ سے حوصلے اور ہمت کی دعا کی۔انہوں نے کہا کہ جیل میں مجھ سے کوئی نہیں مل سکتا تھا لیکن پارٹی کی قیادت اور تمام رہنماؤں نے میرے اہل خانہ سے رابطہ رکھا۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے منظم جدوجہد کی اور بڑی طاقت کا مظاہرہ کیا اور وہ اس پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے اس معاملے میں پیپلز پارٹی اور)ن) لیگ کو آن بورڈ نہیں لیا اورمیری ذاتی طو رپر رائے تھی کہ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر انہوں نے کر بھی لیا تھا دونوں بڑی جماعتوں کو ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ بعد میں یہ ہوا کہ مولانا فضل الرحمان نے یکطرفہ فیصلہ کیا جسے دونوں جماعتوں نے دل سے قبول نہیں کیا

اور فاصلہ رکھا۔شاید اسی وجہ سے مولانافضل الرحمان نے جس طاقت کا مظاہرہ کیا تھا اس کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے اگر ایسا وہ آن بورڈ لیتے تو مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں غریب آدمی کے لئے دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہے،مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی چیخیں نکل رہی ہیں، معیشت چل نہیں رہی، حکومت کو ماسوائے اپوزیشن کو گالیاں نکالنے اور انتقامی کارروائی کے کوئی کام نہیں،اس طرح حکومت اور ملک نہیں چل سکتا اور دوسرا آپشن انتخابات ہی ہیں او راسکے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہونا چاہیے ۔ ان ہاؤس تبدیلی انتخابات کے لئے ہونی چاہیے،ان ہاؤس تبدیلی اس لئے نہ آئے کہ ان کو اتاریں دوسرا بیٹھ جائے،ان ہاؤس تبدیلی انتخابات کے لئے قابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہر یار آفریدی کو کہیں ہاتھ مین قران پاک پکڑیں

او ر بات کریں، وہ کہتے ہیں میں نے خدا کو جان دینی ہے تو وہ سب نے دینی ہے اس میں کوئی چوائس نہیں۔ رانا ثنااللہ نے کہا کہ میرا رویہ خدا نخواستہ باغیانہ نہیں،میں سیاسی او رجمہوری او رکارکن ہوں اوراپنی جماعت کے ساتھ ہوں او راپنی کمٹمنٹ پر قائم ہوں، لوٹا کریسی کو لعنت سمجھتا سمجھتا ہوں۔ جمہوری رویے کو مجھے جاری رکھنا چاہیے بلکہ ہر شخص کو جاری رکھنا چاہیے جو جمہوریت کی بات کرتا ہے۔ ووٹ کی عزت سے مراد یہ نہیں کہ ہمیں ووٹ دو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کے فیصلے کا احترام کرو اوراس سے ملک آگے بڑھے گا،کٹھ پتلی حکومت اور سلیکٹڈ سے ملک آگے نہیں بڑھے گا۔ نواز شریف پوری طرح سے اس بات پر کمٹڈ ہیں۔انہوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے کہا کہ جب آرمی چیف کی توسیع ہوئی ہے تو اپوزیشن کی

تمام جماعتوں نے اسے قبول کیا اور کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ حکومت نے عدالت میں لکھ کر دیا ہے کہ ہم چھ ماہ میں قانون سازی کر لیں گے اورعدالت نے آپ کو اجازت دیدی ہے۔حکومت کی نا لائقی کی وجہ سے فوج کے ادارے اور آرمی چیف کے آفس کو متنازعہ بنایا گیا ۔حکومت نے نظر ثانی کی درخواست دائر کر کے بہت زیادہ زیادتی کی اورآپ آرمی چیف کے آفس کو مزید متنازعہ کریں گے۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی قیادت نے اشاروں کناروں میں حکومت سے کہا ہے کہ آپ آ جائیں ہمارے ساتھ بیٹھیں اوربات کریں لیکن حکومت کہتی ہے کہ یہ تو معافی مانگیں گے،یہ بھاگے بھاگے آئیں گے اوریہ منت کریں گے لیٹ جائیں گے اصل میں ان کا مقصد توہین ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ اپوزیشن کسی نہ کسی طرح جوش میں آکر پیچھے ہٹ جائے لیکن اپوزیشن نے ابھی تک ایسی کوئی بات نہیں کی۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…