اسلام آباد (این این آئی)افغانستان کے سابق وزیر اعظم اور حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ انجینئرحکمتیار نے کہا ہے کہ قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے باوجود مسئلہ افغانستان حل نہیں ہوسکتا،جب تک افغان آپس میں کسی حل پر راضی نہیں ہوتے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے بین الافغانی مذاکرات ضروری ہیں اچھا ہوتا کہ قطر کی بجائے مذاکرات کابل میں ہوتے۔ قطر میں جاری مذاکرات کو اچھی پیش رفت سمجھتے ہیں لیکن اس کے بعد افغان اپس میں مذاکرات شروع کریں
تاکہ مسئلے کا حل نکالا جائے۔ اسلام آباد میں این این ائی کے ساتھ خصوصی گفتگو میں انہوں نے مری میں افغانستان میں امن سے متعلق کانفرنس کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔ انہوں نے چند لوگوں کی جانب سے پاکستان میں امن کانفرنس پر اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر روس اور قطر میں کانفرنسز اور مذاکرات ہو سکتے ہیں تو پاکستان میں ہونے پر اعتراض کیوں۔ یاد رہے کہ ایک ہفتہ پہلے مری کے قریب بھوربن میں افغان امن سے متعلق کانفرنس میں حکمتیار کے علاوہ کئی اہم افغان رہنماوں نے شرکت کی تھی۔ حکمتیار نے وزیر اعظم عمران خان سے اپنی ملاقات کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں اور افغان وفد کے دیگر شرکا نے وزیر اعظم عمران خان سے یہی کہا کہ یہ اچھا ہو گا کہ آپ طالبان پر اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے انہیں اس پر راضی کریں کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں، اگر یہ نہیں ہو تا تو اچھا یہ ہے کہ طالبان سیاسی جاعتوں کے ساتھ مذاکرات شروع کریں۔ اور وہ اس پر غور کریں کہ کس طرح ہم کابل حکومت کو ان مذاکرات میں شامل کریں۔ بین الافغانی مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع ہونا چاہئے۔جب حکمتیار سے پوچھا گیا کہ وزیر اعظم پاکستان نے ان کی تجویز کا کیا جواب دیا تو افغان رہنماء نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کیلئے کوششیں ہو رہی ہیں۔
حکمتیار نے کہا کہ مری کانفرنس میں جو ہوئی ہے وہ بہت فائدہ مند ہے۔ یہ ایک اچھا آغاز ہے، یہ جاری رہنی چاہئے، ایسے مذاکرات طالبان اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے چاہئیں اوروہ امن سے متعلق بات کریں اور افغان حکومت کی شرکت سے متعلق بھی بات کریں۔ مری کانفرنس پر اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے حزب اسلامی کے سربراہ نے کہا کہ اچھا ہوتا اگر یہ مذاکرات کابل میں ہوتے لیکن اگر ماسکو میں ہوتے ہیں اور کوئی اعتراض نہیں کرتا تو اسلام آباد میں ہونے پر
کیوں اعتراض کیا جاتا ہے۔ اگر دوحہ میں ہونے والے مذاکرات پر کوئی اعتراض نہیں کرتا جہاں افغان نہیں ہیں۔ اور وہاں امریکہ کے ایک بڑے فوجی اڈے کے قریب ہوتے ہیں۔ دوحہ میں امریکہ کا جو بڑا فوجی مرکز ہے وہ طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی جگہ سے چندمیٹر دور ہے تو کابل اور اسلام آباد میں مذاکرات کیوں نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میری نظر میں مری کی کانفرنس ایک اہم آغاز ہے۔یہ ایک موثر اور مفید ہے اور میں حکومت پاکستان کا ممنون ہوں کہ پاکستانی حکومت نے
ایک موثراقدام اٹھایا اور میری خواہش کہ یہ سلسلہ آگے بڑھے اور اگر ممکن ہو افغان حکومت کا وفد بھی اس میں شامل ہوناچاہئے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ایک پیش رفت ہے کہ طالبان اور افغان سیاسی جاعتیں پر امن حل کے لئے مذاکرات کا آغاز کریں۔ حکومت اگر ان مذاکرات میں شامل ہو تو اچھی بات ہے اگر حکومت اور حکومت میں شامل جماعتیں اور حکومت سے باہر جماعتیں ایک مشترکہ ٹیم بنائیں۔ اور امن سے متعلق ایک ادارہ بنائیں اور فیصلہ کریں کہ امن سے متعلق فیصلہ یہ کرے گا اور
یہ کسی پر انحصار نہیں کرے گا اور طالبان کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات شروع کرے۔ اگر طالبان کو کوئی مشکل درپیش ہو اور اگر وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے راضی نہ ہوں تو اس صورت میں سہ فریقی مذاکرات ہونے چاہئیں جس میں حکومت، طالبان اور افغان سیاسی جماعتیں شامل ہوں، اگر حکومت حصہ نہیں لیتی تو طالبان اور سیاسی جماعتیں یہ سلسلہ شروع کریں۔ حزب اسلامی کے سربراہ نے کہا کہ افغان آپس میں بیٹھ جائیں اور تمام غیر ملکی اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ
یہ افغانوں کا مسئلہ ہے اور بحران بھی اسی وقت حل ہو سکتا ہے جب افغان آپس میں بیٹھ جائیں اور افغانستان کے مستقبل، جنگ، امن، آئندہ کے نظام اور انتخابات اور دیگر اہم قومی معاملات پر ان کا آپس میں اتفاق ہو جائے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ اور دیگر اہم ممالک افغانوں کے آپس کے مذاکرات کی حقیقت تسلیم کریں۔ ہمارے پڑوسی بھی اس حقیقت کو تسلیم کریں۔ یہ مسئلہ اس وقت حل ہو سکتا ہے جب جنگ میں ملوث افغان فریق آپس میں بیٹھ جائیں اور وہ جنگ کے خاتمے کا فیصلہ کریں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
حکمتیار نے کہا کہ دوسرا نقطہ یہ ہے کہ افغانستان میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک افغانستان کی حاکمیت، اقتدار اعلیٰ، اور افغانوں کا یہ حق کہ وہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کریں۔ اپنی پسند کا نظام واضح کریں، اپنی قیادت کا انتخاب خود کریں۔ جت تک یہ تسلیم نہیں کیا جاتا، افغانستان میں امن نہیں آسکتا اور یہ کہ افغانستان میں حکومت کسی کی کٹھ پتلی نہیں ہو گی، نہ کسی بڑی طاقتوں کی زیر اثر ہو گی اور نہ ہی پڑوسی ممالک کے، افغانستان کی سر زمین کو کوئی بھی ملک اپنے حریف کے خلاف استعمال نہیں کرے گا۔ نہ بھارت پاکستان کے خلاف، نہ امریکہ چین اور روس کے خلاف استعمال کرے گا۔